فیض جنوں سے محرم اسرار ہو گئے
فیض جنوں سے محرم اسرار ہو گئے اتنے فریب کھائے کہ ہشیار ہو گئے جب آشنائے لذت آزار ہو گئے ہر غم کے نقد جاں سے خریدار ہو گئے کچھ کم نہ تھا سرور غم زندگی ہمیں کم ظرف تھے وہ لوگ جو مے خوار ہو گئے کیا معرکے زمین کے سر ہو چکے تمام کیوں آسماں سے برسر پیکار ہو گئے بار گناہ لینا پڑا اپنے ...