عجیب لوگ ہیں گل کرکے زندگی کے چراغ

عجیب لوگ ہیں گل کرکے زندگی کے چراغ
جلائے بیٹھے ہیں اپنے گھروں میں گھی کے چراغ


بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں مہر و ماہ و نجوم
ہر ایک سمت فروزاں ہیں تیرگی کے چراغ


نظر نظر میں دئے حسرتوں کے لرزاں ہیں
قدم قدم پہ ہیں رقصاں فسردگی کے چراغ


چمن میں زاغ و زغن کی بپا وہ شورش ہے
کہ چھن گئے ہیں عنادل سے نغمگی کے چراغ


بھڑک اٹھی ہے دلوں میں وہ آتش نفرت
کہ جل اٹھے ہیں لبوں تک پہ تشنگی کے چراغ


یہ سوچ لیں کہ اڑائے ہنسی نہ باد خزاں
کریں نہ اہل چمن گل شگفتگی کے چراغ


انہیں کے گھر میں اندھیرا ہے خون سے جن کے
فروغ کش ہیں شبستان خواجگی کے چراغ


محیط خانۂ جاں پر ہے ابر محرومی
جلاؤ خون تمنا سے زندگی کے چراغ


اٹھی ہیں آندھیاں ابلیسیت کی وہ اطہرؔ
لرز رہے ہیں خدائی میں بندگی کے چراغ