ہمارا ذکر اور ان کی زباں سے
ہمارا ذکر اور ان کی زباں سے
کہاں نسبت زمیں کو آسماں سے
کہوں کیونکر نظر سے تو نہاں ہے
پتا اپنا ملا تیرے نشاں سے
ہوا یوں بھی کہ اس کی سمت اکثر
چلے اور لوٹ آئے درمیاں سے
جلیں جب فصل گل میں بھی نشیمن
تو پھر کیا کیجئے شکوہ خزاں سے
فریب زندگی کھائیں کہاں تک
چرائیں آنکھ مرگ ناگہاں سے
حوادث پیش آتے ہیں زمیں کو
ستارے ٹوٹتے ہیں آسماں سے
بشر کے مسئلے حل کرنے شاید
فرشتے آئیں گے اب آسماں سے
جناب خضر سے پوچھیں کسی دن
ملا کیا ان کی عمر جاوداں سے
دبی ہے آگ جو سینہ میں اطہرؔ
نہیں کچھ کم کسی آتش فشاں سے