Aslam Noor Aslam

اسلم نور اسلم

اسلم نور اسلم کی غزل

    کرب جدائی آنکھوں میں آنے نہیں دیا

    کرب جدائی آنکھوں میں آنے نہیں دیا بیکار آنسوؤں کو بھی جانے نہیں دیا میں نے نکل کے خود سے بنایا تجھے خدا تو نے عقیدتوں کو نبھانے نہیں دیا کچھ دان مانگ لیتا مگر رات دل نے بھی سوئی ہوئی پری کو جگانے نہیں دیا ہوتی قبول اس کے سوا کس کی رہبری دل نے ہی انقلاب اٹھانے نہیں دیا آنکھیں ...

    مزید پڑھیے

    بدل دیے ہیں مکمل نصاب اب کے سے

    بدل دیے ہیں مکمل نصاب اب کے سے پڑھی ہے درد کی ایسی کتاب اب کے سے کہا ہے باد صبا نے کہ بے قرار ہیں وہ چلو کہ کوئی تو آیا جواب اب کے سے گھٹن یہ سینے کی گھٹتی نظر نہیں آتی جڑے ہیں کیسے نہ جانے حساب اب کے سے یہ کون پوچھے گا ہم سے کہاں کسے فرصت جو دریا دل تھے ہوئے کیوں سراب اب کے ...

    مزید پڑھیے

    لبوں پر تشنگی آنکھوں میں ہے برسات کا عالم

    لبوں پر تشنگی آنکھوں میں ہے برسات کا عالم کہ تنہا کیسے گزرے گا بتا جذبات کا عالم سفر خوشبو بنے اور راستے آسان ہو جائیں نگاہوں میں سما جائے جو تیری ذات کا عالم بلندی پر کھڑے ہو کر میاں حیران سے کیوں ہو سمجھ میں آ گیا شاید انوکھی مات کا عالم جدا ہونا رگ جاں سے بھلا آسان ہی کب ...

    مزید پڑھیے

    موج غم حیات شرابور کر گئی

    موج غم حیات شرابور کر گئی خاموش دھڑکنوں میں بڑا شور کر گئی بے خود سا ہو گیا تھا میں رقص و سرور میں اور اس کی ہم نوائی مجھے مور کر گئی میں ہو کے با وفا بھی تو اک بے وفا رہا نظروں میں میری مجھ کو ہی وہ چور کر گئی سمٹی سی لڑکی دے گئی پیغام آخرش نازک کلائی اس کی بھی کچھ زور کر گئی مجھ ...

    مزید پڑھیے

    خموشیوں میں بہت سے سوال لایا ہے

    خموشیوں میں بہت سے سوال لایا ہے شکایتوں کے لئے رخ نکال لایا ہے یہ کہہ کے اس نے مجھے حیرتوں میں ڈال دیا وہ میرے بیتے ہوئے ماہ و سال لایا ہے ذرا سی دیر میں صدیوں کا بن گیا ضامن یہ کس مزاج کا حرف کمال لایا ہے اب اس کے آگے تمہیں حیرتیں بتاؤں بھی کیا خوشی کا لمحہ بھی رنج و ملال لایا ...

    مزید پڑھیے

    فصیل ذات پر اترا رہا ہوں

    فصیل ذات پر اترا رہا ہوں زمانے سے بچھڑتا جا رہا ہوں میں پتھر کے نئے پیکر بنا کر بہ شکل موم ڈھلتا جا رہا ہوں وہ اک چہرہ وہ پلکیں اور تبسم غزل کو اس کی لے پہ گا رہا ہوں تصور میں کسی سے بات کر کے لب و لہجے پہ اس کے چھا رہا ہوں اڑانوں سے ابھی غافل ہوں اپنی زمیں کو آسماں بتلا رہا ...

    مزید پڑھیے

    خودی میں ڈوب کے خود سے کبھی ملے ہو کیا

    خودی میں ڈوب کے خود سے کبھی ملے ہو کیا ہجوم یاراں میں تنہا کبھی ہوئے ہو کیا نہ جانے کس لئے دنیا کا رونا روتے ہو مزاج اس کے نہیں جانتے نئے ہو کیا خطرہ بھٹکنے کا رہتا ہے جس روش پہ بہت تم اس روش پہ کبھی دور تک گئے ہو کیا وہ جس پہ مجھ کو شکایات نہیں رہی تم سے اس ایک بات پہ مجھ سے خفا ...

    مزید پڑھیے

    زندگی ہو مری نظر میں ہو

    زندگی ہو مری نظر میں ہو ہو دواؤں میں چشم تر میں ہو جب بھی لکھا ہے تم کو لکھا ہے تم ہی لفظوں میں ہو سطر میں ہو تم ہی محور ہو ہر تخیل کا میر و غالب میں ہو ظفر میں ہو تم فضاؤں میں رقص کرتی ہو کو بہ کو پھیلتی خبر میں ہو اب زمانے سے کیا چھپاؤں میں تم تو مہتاب ہو نظر میں ہو میری قسمت ...

    مزید پڑھیے

    دل کی باتیں دل سے کرنا اتنا بھی آسان نہیں

    دل کی باتیں دل سے کرنا اتنا بھی آسان نہیں خود کی خاطر خود میں رہنا اتنا بھی آسان نہیں پل جو گزرے تیری خاطر مدہوشی کے عالم میں خاموشی میں سنتے رہنا اتنا بھی آسان نہیں ہجر کی شب جب چاند کو دیکھا تو مجھ کو محسوس ہوا اپنے آپ میں تل تل مارنا اتنا بھی آسان نہیں آپ وفا کے پیکر تھے ہم ...

    مزید پڑھیے

    کچھ آرزو کے خواب دکھانے لگی ہوا

    کچھ آرزو کے خواب دکھانے لگی ہوا پانی کے زندگی کو ستانے لگی ہوا ہم بھی ہوئے شکار ہیں اظہار عشق کے جب گیسوؤں کے خم کو دکھانے لگی ہوا باد صبا تمہاری مہک لے کے آ گئی روٹھے ہوئے دلوں کو منانے لگی ہوا لیلیٰ و قیس ہم کو کہنے لگے ہیں لوگ رسوائیوں کو نام بتانے لگی ہوا دل کی منڈیر کا یہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2