خموشیوں میں بہت سے سوال لایا ہے

خموشیوں میں بہت سے سوال لایا ہے
شکایتوں کے لئے رخ نکال لایا ہے


یہ کہہ کے اس نے مجھے حیرتوں میں ڈال دیا
وہ میرے بیتے ہوئے ماہ و سال لایا ہے


ذرا سی دیر میں صدیوں کا بن گیا ضامن
یہ کس مزاج کا حرف کمال لایا ہے


اب اس کے آگے تمہیں حیرتیں بتاؤں بھی کیا
خوشی کا لمحہ بھی رنج و ملال لایا ہے


مجھے پتا نہ چلا یہ کہ میرا محسن بھی
ورق پہ سونے کے لکھ کر زوال لایا ہے


بساط عشق میں اسلمؔ یہ کیسے مات ہوئی
کہاں کہاں سے وہ مہرے نکال لایا ہے