فصیل ذات پر اترا رہا ہوں

فصیل ذات پر اترا رہا ہوں
زمانے سے بچھڑتا جا رہا ہوں


میں پتھر کے نئے پیکر بنا کر
بہ شکل موم ڈھلتا جا رہا ہوں


وہ اک چہرہ وہ پلکیں اور تبسم
غزل کو اس کی لے پہ گا رہا ہوں


تصور میں کسی سے بات کر کے
لب و لہجے پہ اس کے چھا رہا ہوں


اڑانوں سے ابھی غافل ہوں اپنی
زمیں کو آسماں بتلا رہا ہوں


معمہ بن گئی ہے زندگی اب
میں الجھی زلف کو سلجھا رہا ہوں


ابھی اس گاؤں میں میلے لگیں گے
ابھی جس گاؤں پر منڈلا رہا ہوں


شناسائی ہوئی خاروں سے اتنی
گلوں کو دیکھ کر گھبرا رہا ہوں


میں لفظوں میں حسیں رومان لا کر
نئے لہجے میں ڈھلتا جا رہا ہوں


وہی ہے وصل کی جھوٹی تسلی
میں اسلمؔ روح کو تڑپا رہا ہوں