لبوں پر تشنگی آنکھوں میں ہے برسات کا عالم

لبوں پر تشنگی آنکھوں میں ہے برسات کا عالم
کہ تنہا کیسے گزرے گا بتا جذبات کا عالم


سفر خوشبو بنے اور راستے آسان ہو جائیں
نگاہوں میں سما جائے جو تیری ذات کا عالم


بلندی پر کھڑے ہو کر میاں حیران سے کیوں ہو
سمجھ میں آ گیا شاید انوکھی مات کا عالم


جدا ہونا رگ جاں سے بھلا آسان ہی کب تھا
مرے ہر ہر نفس میں گھل گیا سکرات کا عالم


اگر ہیں نیتیں شفاف اور دل میں ہے گنجائش
سلجھ کر کیوں نہیں دیتا یہ الجھی بات کا عالم


میں انگلی پھیرتا ہوں جب کبھی بھیگے سے ساحل پر
بنا دیتا ہے تصویریں تری ذرات کا عالم