بدل دیے ہیں مکمل نصاب اب کے سے
بدل دیے ہیں مکمل نصاب اب کے سے
پڑھی ہے درد کی ایسی کتاب اب کے سے
کہا ہے باد صبا نے کہ بے قرار ہیں وہ
چلو کہ کوئی تو آیا جواب اب کے سے
گھٹن یہ سینے کی گھٹتی نظر نہیں آتی
جڑے ہیں کیسے نہ جانے حساب اب کے سے
یہ کون پوچھے گا ہم سے کہاں کسے فرصت
جو دریا دل تھے ہوئے کیوں سراب اب کے سے
بچھڑ کے تجھ سے کہاں نیند آئی اب کے بھی
ملے ہیں جاگتی آنکھوں کے خواب اب کے سے
کسی کی یاد کا مفلر ذرا نکال ہی لو
کہ ہونے والا ہے موسم خراب اب کے سے
عجیب بات ہے دل سن نہیں رہا میری
کسی کا ہو گیا خانہ خراب اب کے سے
جو بات ہوگی برابر کی ہوگی اب اسلمؔ
کہ دل بھی ہو گیا میرا نواب اب کے سے