موج غم حیات شرابور کر گئی
موج غم حیات شرابور کر گئی
خاموش دھڑکنوں میں بڑا شور کر گئی
بے خود سا ہو گیا تھا میں رقص و سرور میں
اور اس کی ہم نوائی مجھے مور کر گئی
میں ہو کے با وفا بھی تو اک بے وفا رہا
نظروں میں میری مجھ کو ہی وہ چور کر گئی
سمٹی سی لڑکی دے گئی پیغام آخرش
نازک کلائی اس کی بھی کچھ زور کر گئی
مجھ پہ حیات کیسا یہ احسان کر دیا
ہر فیصلہ مرا تو لب گور کر گئی
آنسو شب فراق میں رک ہی نہیں سکے
ضبط صدا کو میری وہ کمزور کر گئی
اسلمؔ جو درد جاں تھا وہ جان حیات ہے
نازک یہ کام رشتے کو اک ڈور کر گئی