دل کی باتیں دل سے کرنا اتنا بھی آسان نہیں
دل کی باتیں دل سے کرنا اتنا بھی آسان نہیں
خود کی خاطر خود میں رہنا اتنا بھی آسان نہیں
پل جو گزرے تیری خاطر مدہوشی کے عالم میں
خاموشی میں سنتے رہنا اتنا بھی آسان نہیں
ہجر کی شب جب چاند کو دیکھا تو مجھ کو محسوس ہوا
اپنے آپ میں تل تل مارنا اتنا بھی آسان نہیں
آپ وفا کے پیکر تھے ہم ہی وفا کو سمجھے نہیں
خود کو ہی الزام یہ دینا اتنا بھی آسان نہیں
تم سے بچھڑ کے یاد تمہاری شاذ و نادر ہی آئی
ڈوبی آنکھوں سے یہ کہنا اتنا بھی آسان نہیں
اسلمؔ آپ ہیں سب سے اچھے اور اس پر معصوم بہت
پھولوں کے یہ نشتر سہنا اتنا بھی آسان نہیں