خودی میں ڈوب کے خود سے کبھی ملے ہو کیا
خودی میں ڈوب کے خود سے کبھی ملے ہو کیا
ہجوم یاراں میں تنہا کبھی ہوئے ہو کیا
نہ جانے کس لئے دنیا کا رونا روتے ہو
مزاج اس کے نہیں جانتے نئے ہو کیا
خطرہ بھٹکنے کا رہتا ہے جس روش پہ بہت
تم اس روش پہ کبھی دور تک گئے ہو کیا
وہ جس پہ مجھ کو شکایات نہیں رہی تم سے
اس ایک بات پہ مجھ سے خفا ہوئے ہو کیا
یہی سلیقہ ہے یاروں کسی پہ مرنے کا
کبھی کسی کے لئے زندگی جئے ہو کیا
جنون عشق کی پرواز میں یہ کس کا خوف
بلندیوں کے تقاضوں سے ڈر گئے ہو کیا