زندگی ہو مری نظر میں ہو

زندگی ہو مری نظر میں ہو
ہو دواؤں میں چشم تر میں ہو


جب بھی لکھا ہے تم کو لکھا ہے
تم ہی لفظوں میں ہو سطر میں ہو


تم ہی محور ہو ہر تخیل کا
میر و غالب میں ہو ظفر میں ہو


تم فضاؤں میں رقص کرتی ہو
کو بہ کو پھیلتی خبر میں ہو


اب زمانے سے کیا چھپاؤں میں
تم تو مہتاب ہو نظر میں ہو


میری قسمت بنے بھی رشتے قمر
کوئی تم سا جو میرے گھر میں ہو


کچھ لبوں پر ہمیں بھی ہے اسلمؔ
جی کے اترے ہوئے بھنور میں ہو