Aslam Noor Aslam

اسلم نور اسلم

اسلم نور اسلم کی نظم

    عزم

    یاد نے اپنے پنکھ پھر سے کھول لیے ایک نئی اڑان کے لیے دور بہت دور فلک کے اس کونے پر جہاں ایک ایسی بستی ہے جس کی فضا میں انگنت رنگین نظارے بکھرے ہوئے ہیں جن کو صرف چھو کے روح ان بلندیوں کا سفر طے کرتی ہے جس کی آس مجھے بھی ہے اور تمہیں بھی آؤ میرے ساتھ میں تمہیں وہ سرگوشیاں سناؤں کبھی ...

    مزید پڑھیے

    بے تابی

    کبھی کبھی اکثر تمہاری یاد کا پہلو بڑا بے چین کرتا ہے سکوں مجھ کو نہیں آتا تمہاری یاد آتی ہے ذرا رنجور کرتی ہے ذرا خاموش رہتا ہوں ذرا سا شور سنتا ہوں سمجھ میں کچھ نہیں آتا بڑا بے چین رہتا ہوں ہوا بھی کچھ نہیں کہتی صبا بھی چپ ہی رہتی ہے ندا اکثر گلے کے آخری نکڑ تلک آ کر بہت دھیرے سے ...

    مزید پڑھیے

    تم ہی بتاؤ

    تمہاری تحریر پڑھتے پڑھتے کہیں کہیں پہ اٹک رہا ہوں کہیں پہ لکھا ہے تم نے شاید کہ میرے بارے نہ اتنا سوچ وہ شاید کہ سوچو ہی لکھا ہوگا کہیں کہیں پہ لکھا ہے تم نے کہ مجھ سے دور رکھو ذرا تم یقیناً وہ دوری ہی لکھا ہوگا کہیں پہ یہ بھی لکھا ہے تم نے میں اپنی منزل تلا لوں اب وہ شاید تلاش ہی ...

    مزید پڑھیے

    کپس

    چائے کا ایک سپ لگاتے ہی اس کے ہونٹوں کی یاد تازہ ہوئی کپ بورڈ میں رکھے سلیقے سے چائے کے کپس جن پہ اس نے اپنے ہونٹوں کے لمس یہ کہہ کر چھوڑے تھے کہ سنو جاناں انہیں تم جب بھی اپنے خوبصورت ہونٹوں سے لگاؤ گے مجھے اپنی سانسوں میں پاؤ گے

    مزید پڑھیے

    سبق

    کہیں کہیں پہ ہری سی شاخیں ہیں اپنے غنچوں پہ مسکراتی کہیں کہیں پہ ہیں سوکھے پتے اداسیوں کے سبق سناتے کہیں کہیں پہ گلوں پہ بھنورے محبتوں کی کہانی لکھتے کہیں کہیں پہ گلاب عشق کے کتاب دل میں ہیں سوکھے ملتے کہیں پہ دریا کہیں پہ صحرا کہیں بہاریں کہیں خزائیں کہیں تماشا کہیں ...

    مزید پڑھیے

    سنو

    کہو کہ رات ناداں ہے عجب سے خواب بنتی ہے کہو کہ چاند آدھا ہے بہت بے چین دکھتا ہے کہو کہ سرد موسم میں ذرا سی گرم چاہت ہے کہو کہ نام الفت کا میرے نزدیک بیٹھا ہے کہو کہ یاد پیہم سی ذرا سا شور کرتی ہے کہو کہ دل مچلتا ہے ذرا رنجور کرتا ہے کہو کہ سرد سانسیں بھی عجب تسکین دیتی ہیں کہو کہ نام ...

    مزید پڑھیے