کچھ آرزو کے خواب دکھانے لگی ہوا

کچھ آرزو کے خواب دکھانے لگی ہوا
پانی کے زندگی کو ستانے لگی ہوا


ہم بھی ہوئے شکار ہیں اظہار عشق کے
جب گیسوؤں کے خم کو دکھانے لگی ہوا


باد صبا تمہاری مہک لے کے آ گئی
روٹھے ہوئے دلوں کو منانے لگی ہوا


لیلیٰ و قیس ہم کو کہنے لگے ہیں لوگ
رسوائیوں کو نام بتانے لگی ہوا


دل کی منڈیر کا یہ دیا کیسے بجھ گیا
پوچھا تو اپنا پہلو بجانے لگی ہوا


تم جو نہیں ہو پاس تو کیسے بدل گئی
شبنم میں بھیگی رات جلانے لگی ہوا


اسلمؔ کوئی جو شب کبھی ظالم سی بن گئی
سینے سے لگ کے مجھ کو سلانے لگی ہوا