ہمارے دل کو تڑپایا بہت ہے
ہمارے دل کو تڑپایا بہت ہے ستم گر نے ستم ڈھایا بہت ہے کبھی تو آئے گا موسم خوشی کا لہو آنکھوں نے برسایا بہت ہے اجالے جب منظم ہو گئے ہیں اندھیرا پھر تو گھبرایا بہت ہے کہاں میں جاؤں گا میرے لئے تو تری دیوار کا سایہ بہت ہے تو کیوں رہبر کے پیچھے چل رہے ہو اگر رہبر نے بھٹکایا بہت ...