ہمارے دل کو تڑپایا بہت ہے

ہمارے دل کو تڑپایا بہت ہے
ستم گر نے ستم ڈھایا بہت ہے


کبھی تو آئے گا موسم خوشی کا
لہو آنکھوں نے برسایا بہت ہے


اجالے جب منظم ہو گئے ہیں
اندھیرا پھر تو گھبرایا بہت ہے


کہاں میں جاؤں گا میرے لئے تو
تری دیوار کا سایہ بہت ہے


تو کیوں رہبر کے پیچھے چل رہے ہو
اگر رہبر نے بھٹکایا بہت ہے


قدم دریا میں جو رکھتا نہیں اب
وہ طوفانوں سے ٹکرایا بہت ہے


تہی دامن کمال انورؔ ہے لیکن
ادب کا پھر بھی سرمایہ بہت ہے