وفا پرستوں کے منہ سے زبان کھینچتا ہے

وفا پرستوں کے منہ سے زبان کھینچتا ہے
ذرا ذرا پہ ستم گر کمان کھینچتا ہے


میں چھوڑ کر چلا آیا ہوں شہر میں جس کو
مجھے وہ گاؤں کا کچا کمان کھینچتا ہے


یہ اور بات وہی فاصلہ ہے صدیوں سے
زمیں کو اپنی طرف آسمان کھینچتا ہے


مری نظر میں بہادر وہی سپاہی ہے
خلاف ظلم جو اپنی کمان کھینچتا ہے


تماشہ دیکھ کے مہمان ہے یہ حیرت میں
جو مال تر ہے اسے میزبان کھینچتا ہے


کبھی کبھی تری فرقت میں لگتا ہے ایسا
بدن سے جیسے کوئی میری جان کھینچتا ہے


ادب کی علم کی باتیں اسے پسند نہیں
کمالؔ کس لئے دنیا کا دھیان کھینچتا ہے