Anwar Kamal Anwar

انور کمال انور

انور کمال انور کے تمام مواد

12 غزل (Ghazal)

    ہمارے دل کو تڑپایا بہت ہے

    ہمارے دل کو تڑپایا بہت ہے ستم گر نے ستم ڈھایا بہت ہے کبھی تو آئے گا موسم خوشی کا لہو آنکھوں نے برسایا بہت ہے اجالے جب منظم ہو گئے ہیں اندھیرا پھر تو گھبرایا بہت ہے کہاں میں جاؤں گا میرے لئے تو تری دیوار کا سایہ بہت ہے تو کیوں رہبر کے پیچھے چل رہے ہو اگر رہبر نے بھٹکایا بہت ...

    مزید پڑھیے

    حسین خوابوں کی محفل سجانا بھول گیا

    حسین خوابوں کی محفل سجانا بھول گیا ملے وہ رنج کہ میں مسکرانا بھول گیا چراغاں میں نے کیا سارے شہر میں لیکن خود اپنے گھر کا اندھیرا مٹانا بھول گیا کہانیاں ہیں بہت میرے حافظے میں مگر جو یاد رکھنا تھا میں وہ فسانا بھول گیا تلاش زر میں میں پھرتا رہا زمانے میں جو میرے پاس تھا میں وہ ...

    مزید پڑھیے

    وفا پرستوں کے منہ سے زبان کھینچتا ہے

    وفا پرستوں کے منہ سے زبان کھینچتا ہے ذرا ذرا پہ ستم گر کمان کھینچتا ہے میں چھوڑ کر چلا آیا ہوں شہر میں جس کو مجھے وہ گاؤں کا کچا کمان کھینچتا ہے یہ اور بات وہی فاصلہ ہے صدیوں سے زمیں کو اپنی طرف آسمان کھینچتا ہے مری نظر میں بہادر وہی سپاہی ہے خلاف ظلم جو اپنی کمان کھینچتا ...

    مزید پڑھیے

    مبتلائے ہراس لگتی ہے

    مبتلائے ہراس لگتی ہے زندگی بد حواس لگتی ہے زندگی جوش سے بھری تھی کبھی اب تو خالی گلاس لگتی ہے کیسا گزرا ہے حادثہ جانے ساری بستی اداس لگتی ہے کس قدر بد نما ہے یہ دنیا کس قدر خوش لباس لگتی ہے بھول جاتا ہے تشنگی سب کی جب سمندر کو پیاس لگتی ہے گرم نظروں سے دیکھنے والے آگ سی دل کے ...

    مزید پڑھیے

    اب تو مجھ کو مان کے دشمن

    اب تو مجھ کو مان کے دشمن دوست بنے ہیں جان کے دشمن گاؤں میں بھی ہیں شہروں میں بھی ہر سو ہیں انسان کے دشمن دشمن ہے جو انسانوں کا ہم ہیں اس حیوان کے دشمن میرے بھی ہیں دشمن وہ لوگ جو ہیں ہندوستان کے دشمن آپ کے اپنے ہیں عالی جاہ غیر نہیں سلطان کے دشمن گلیوں گلیوں زلفیں کھولے پھرتے ...

    مزید پڑھیے

تمام