مبتلائے ہراس لگتی ہے

مبتلائے ہراس لگتی ہے
زندگی بد حواس لگتی ہے


زندگی جوش سے بھری تھی کبھی
اب تو خالی گلاس لگتی ہے


کیسا گزرا ہے حادثہ جانے
ساری بستی اداس لگتی ہے


کس قدر بد نما ہے یہ دنیا
کس قدر خوش لباس لگتی ہے


بھول جاتا ہے تشنگی سب کی
جب سمندر کو پیاس لگتی ہے


گرم نظروں سے دیکھنے والے
آگ سی دل کے پاس لگتی ہے


جیب خالی ہو جب کمال انورؔ
دس کی گنتی پچاس لگتی ہے