یہ آبرو یہ شان یہ تیور بچا کے رکھ

یہ آبرو یہ شان یہ تیور بچا کے رکھ
دل کو تو خواہشوں سے قلندر بچا کے رکھ


محلوں کی فکر چھوڑ کہ برسات ہے قریب
آندھی سے اپنا پھوس کا چھپر بچا کے رکھ


چاروں طرف ہے آگ چمن میں لگی ہوئی
اپنا وجود موم کے پیکر بچا کے رکھ


کنگال کر نہ دے تجھے قطروں کی پرورش
کچھ اپنے پاس بھی تو سمندر بچا کے رکھ


مجھ پر نہ ختم ہوگا صداقت کا سلسلہ
ترکش میں اپنے تیر ستم گر بچا کے رکھ


بدلی ہوئی ہے وقت کی رفتار آج کل
ذوق سفر کو وقت کے رہبر بچا کے رکھ


پرکھے گا وقت تجھ کو کسوٹی پہ بار بار
انور کمالؔ اپنے تو جوہر بچا کے رکھ