اگر ہمت جواں ہو شادمانی ڈھونڈ لیتی ہے
اگر ہمت جواں ہو شادمانی ڈھونڈ لیتی ہے
ضرورت تپتے صحرا میں بھی پانی ڈھونڈ لیتی ہے
کسی رنگین منظر تک رسائی جب نہیں ہوتی
نظر افسردہ منظر میں جوانی ڈھونڈ لیتی ہے
حدوں سے بڑھنے لگتی ہے گھٹن جب دیدہ و دل کی
طریقہ گفتگو کا بے زبانی ڈھونڈ لیتی ہے
نمائش دل کے زخموں کی چلو دلی میں کرتے ہیں
سنا ہے قاتلوں کو راجدھانی ڈھونڈ لیتی ہے
مسائل کا کبھی حل ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتا
مسائل کا کبھی حل زندگانی ڈھونڈ لیتی ہے
کسی کو قصۂ دل جب سنانا چاہتا ہوں میں
بہانے بے رخی کے بد گمانی ڈھونڈ لیتی ہے
کوئی افتاد جب بھی ٹوٹتی ہے زندگانی پر
مجھی کو کیوں برائے نوحہ خوانی ڈھونڈ لیتی ہے
حقیقت سے اگر رشتہ ہو اس کا تو کمال انورؔ
خود اپنے پڑھنے والوں کو کہانی ڈھونڈ لیتی ہے