حسین خوابوں کی محفل سجانا بھول گیا

حسین خوابوں کی محفل سجانا بھول گیا
ملے وہ رنج کہ میں مسکرانا بھول گیا


چراغاں میں نے کیا سارے شہر میں لیکن
خود اپنے گھر کا اندھیرا مٹانا بھول گیا


کہانیاں ہیں بہت میرے حافظے میں مگر
جو یاد رکھنا تھا میں وہ فسانا بھول گیا


تلاش زر میں میں پھرتا رہا زمانے میں
جو میرے پاس تھا میں وہ خزانہ بھول گیا


نہ جانے کیسے دکھوں سے نجات ملتی ہے
ہمارے گھر میں تو غم آ کے جانا بھول گیا


ملا جو پیڑ پرندہ اتر گیا اس پر
بہ وقت شام جب اپنا ٹھکانا بھول گیا


کسی کے لب پہ نہیں میرے درد کے قصے
تو کیا کمالؔ مجھے یہ زمانہ بھول گیا