فسردہ دل ہیں خوشی سے بچھڑ گئے ہیں لوگ
فسردہ دل ہیں خوشی سے بچھڑ گئے ہیں لوگ
خدا کو بھول کے مشکل میں پڑ گئے ہیں لوگ
غم اور درد کے جنگل اگے ہیں چہروں پر
نئے زمانے میں کتنے اجڑ گئے ہیں لوگ
ستم کی آندھی نے مسمار کر دیا ان کو
یہ لگ رہا ہے جڑوں سے اکھڑ گئے ہیں لوگ
نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی
دکھوں کے پھندے میں ایسے جکڑ گئے ہیں لوگ
تھے راہ راست پہ جب تک پڑے تھے پستی میں
بلندیوں پہ پہنچ کر بگڑ گئے ہیں لوگ
بھلا دئے ہیں خلوص و وفا کے سارے سبق
مفاد خطرے میں آیا تو لڑ گئے ہیں لوگ
عجیب چیز انا کا خمار بھی ہے کمالؔ
نہتے ہو کے بھی میداں میں اڑ گئے ہیں لوگ