عقل سے کام کر
عقل سے کام کر دہر میں نام کر میں نے دیکھا اسے اپنا دل تھام کر قوم کا ہو بھلا ایسا اقدام کر اپنا ہر رنج و غم تو مرے نام کر زندگی ہے یہی صبح سے شام کر مول اپنا بڑھا مجھ کو بے دام کر دیر حافظؔ نہ ہو جلد ہر کام کر
عقل سے کام کر دہر میں نام کر میں نے دیکھا اسے اپنا دل تھام کر قوم کا ہو بھلا ایسا اقدام کر اپنا ہر رنج و غم تو مرے نام کر زندگی ہے یہی صبح سے شام کر مول اپنا بڑھا مجھ کو بے دام کر دیر حافظؔ نہ ہو جلد ہر کام کر
آدمی نور ہے جلوۂ طور ہے رب ہے مختار کل بندہ مجبور ہے نشۂ حرص میں ہر کوئی چور ہے صالحوں کے لیے وعدۂ حور ہے کیا ہے صیہونیت ایک ناسور ہے مغلیہ سلطنت عزم تیمور ہے حافظؔ انسان سے زندگی دور ہے
دور کے ڈھول سہانے ہیں صدیوں کے افسانے ہیں شمع محبت جل کے سمجھ ہم تیرے پروانے ہیں دل میں اتر کر دیکھو ذرا چاہت کے تہہ خانے ہیں مانگ رہے ہیں تجھ سے وفا ہم بھی کیا دیوانے ہیں یاروں کی بد نیت سے شرمندہ یارانے ہیں حافظؔ اب ٹکڑے ٹکڑے ذہن کے تانے بانے ہیں
یہ راز کوئی جاننے والا بھی نہیں ہے سورج کی وراثت میں اجالا بھی نہیں ہے سو رستے کمانے کے نظر آتے ہیں لیکن کھانے کے لیے ایک نوالہ بھی نہیں ہے لب نام ترا لینے سے کترانے لگے ہیں حالانکہ تجھے دل سے نکالا بھی نہیں ہے کیوں سرخ ہوا ہے یہ فلک آج سر شام میں نے تو لہو اپنا اچھالا بھی نہیں ...
آنکھ کے تارے ٹوٹ گئے خواب ہمارے ٹوٹ گئے کل موجوں میں جنگ ہوئی اور کنارے ٹوٹ گئے قطرہ قطرہ برف بنا اور فوارے ٹوٹ گئے میری پلکوں سے گر کے آنسو سارے ٹوٹ گئے حافظؔ وقت برا آیا دیکھ سارے ٹوٹ گئے
دیکھو اپنی آنکھ مچولی ایک حقیقت ہو گئی نا تم سے مجھ کو مجھ سے تم کو آج محبت ہو گئی نا میں نے کہا تھا دھوپ میں میرے ساتھ نہ تم چل پاؤ گے میلی میلی تمہاری اجلی چاند سی صورت ہو گئی نا محفل میں ہنستے ہیں لیکن تنہائی میں روتے ہیں ایک سی میری اور تمہاری اب یہ حالت ہو گئی نا دوزخ میں ...
مری وفا کی وہ پہچان بھی نہیں رکھتے صلہ تو دور ہے احسان بھی نہیں رکھتے وہ برکتوں کے فرشتوں کے انتظار میں ہیں گھروں میں اپنے جو قرآن بھی نہیں رکھتے جنہیں خلوص کی خوشبو عزیز ہوتی ہے وہ اپنی میز پہ گلدان بھی نہیں رکھتے وہ حادثوں سے ڈراتے ہیں اپنے بچوں کو دیوں کے سامنے طوفان بھی ...
کئی جلوے تری پہچان کے دھوکے سے نکلے ہیں سیاست سینکڑوں چہرے ترے چہرے سے نکلے ہیں ہمارے دور کے بچے سبق پڑھتے ہیں چاہت کا کتابوں کے بجائے دل ہر اک بستے سے نکلے ہیں ہر اک بھائی کی خواہش ہے کہ بٹوارا ہو اب گھر کا ابھی ہم ملک کی تقسیم کے صدمے سے نکلے ہیں ادھر دیکھو یہاں ماں ہے ادھر ہے ...
گھر آنگن میں پھیلی دھوپ پیلے رنگ میں لپٹی دھوپ روز کتابیں چومتی ہے صبح کی اجلی اجلی دھوپ ہم جب بھی اسکول گئے ہم سے پہلے وہاں تھی دھوپ ہم نہ رکیں گے منزل تک کیسی بارش کیسی دھوپ دھرتی سونا لگتی ہے چمکائے یوں مٹی دھوپ ڈھونڈا تھا ہم نے تو قلم بستے میں سے نکلی دھوپ کرنوں کی ...
ہم نے سیکھا ہے محبت کرنا ایک اک دل پہ حکومت کرنا ہم بھی تاریخ بدل سکتے ہیں شرط ہے ہمت و جرأت کرنا زیب دیتا نہیں انسانوں کو کسی انساں کی عبادت کرنا رکھ کے خود اپنی ضرورت کو ادھار پوری اوروں کی ضرورت کرنا شب کی تاریکی میں سیکھا ہم نے چاند تاروں کی تلاوت کرنا آخری سانس تلک جیون ...