Amjad Husain Hafiz Karnataki

امجد حسین حافظ کرناٹکی

امجد حسین حافظ کرناٹکی کی غزل

    رات پرانی لگتی ہے

    رات پرانی لگتی ہے بوڑھی نانی لگتی ہے میں راجا ہوں سپنوں کا اور وہ رانی لگتی ہے جو میری سانسوں کی طرح آنی جانی لگتی ہے یاد آتی ہے جب اس کی شام سہانی لگتی ہے میں دیوانہ لگتا ہوں وہ دیوانی لگتی ہے دل جب ٹوٹنے لگتا ہے دنیا فانی لگتی ہے شاعری آپ کی اے حافظؔ اپنی کہانی لگتی ہے

    مزید پڑھیے

    پھول نہیں تو کانٹا دے

    پھول نہیں تو کانٹا دے مجھ کو کوئی تحفہ دے شبنم مانگ رہے ہیں گل اپنی آنکھیں چھلکا دے پتھر کاٹ کے کیڑے کو پالنے والا دانہ دے دھوپ میں جلتا ہے دن بھر سورج کو اک چشمہ دے حافظؔ وقت اگر چاہے حاتم کو بھی کاسہ دے

    مزید پڑھیے

    دل میں دھڑکن لب میں جنبش چاہیے

    دل میں دھڑکن لب میں جنبش چاہیے زندہ رہنے کو یہ ورزش چاہیے آدمی ہونے کا دینے کو ثبوت پاؤں میں تھوڑی سی لغزش چاہیے بیٹھے بیٹھے قسمتیں بنتی نہیں عزم محنت اور کوشش چاہیے امتزاج عیش و غم ہے زندگی لاکھ خوشیاں بھی ہوں رنجش چاہیے حافظؔ اس کو جستجو سورج کی ہے اور تمہیں بھی ایک مہوش ...

    مزید پڑھیے

    یہ مہکتے ہوئے جذبات یہ اشعار کے پھول

    یہ مہکتے ہوئے جذبات یہ اشعار کے پھول کاش کام آئیں کسی کے مرے افکار کے پھول میرے دل نے جو سجا رکھے ہیں زخموں کی طرح کھل نہ پائے کسی گلشن میں وہ معیار کے پھول سونگھتی ہیں انہیں خوش ہو کے بہشتی حوریں سرفروشوں کے بدن پر ہیں جو تلوار کے پھول یہ مرے اشک ندامت ہیں خدا کو محبوب دنیا ...

    مزید پڑھیے

    رنج و غم لاکھ ہوں مسکراتے رہو

    رنج و غم لاکھ ہوں مسکراتے رہو دوست دشمن سے ملتے ملاتے رہو یہ اندھیرے ہیں مہمان اک رات کے تم مگر صبح تک جگمگاتے رہو میں بھلانے کی کوشش کروں گا تمہیں تم مجھے روز و شب یاد آتے رہو راہ کے پیچ و خم خود سلجھ جائیں گے سوئے منزل قدم کو بڑھاتے رہو ابر بن کر برستے رہو ہر طرف عمر شادابیوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2