دیکھو اپنی آنکھ مچولی ایک حقیقت ہو گئی نا
دیکھو اپنی آنکھ مچولی ایک حقیقت ہو گئی نا
تم سے مجھ کو مجھ سے تم کو آج محبت ہو گئی نا
میں نے کہا تھا دھوپ میں میرے ساتھ نہ تم چل پاؤ گے
میلی میلی تمہاری اجلی چاند سی صورت ہو گئی نا
محفل میں ہنستے ہیں لیکن تنہائی میں روتے ہیں
ایک سی میری اور تمہاری اب یہ حالت ہو گئی نا
دوزخ میں پہنچائے بڑوں کو ان کے دکھاوے کے سجدے
بچوں کو ماں کی خدمت سے حاصل جنت ہو گئی نا
دید کا میں بھوکا ہوں حافظؔ اس کا رخ ہے اک لقمہ
اس کو دیکھا تو پوری آنکھوں کی ضرورت ہو گئی نا