یہ راز کوئی جاننے والا بھی نہیں ہے
یہ راز کوئی جاننے والا بھی نہیں ہے
سورج کی وراثت میں اجالا بھی نہیں ہے
سو رستے کمانے کے نظر آتے ہیں لیکن
کھانے کے لیے ایک نوالہ بھی نہیں ہے
لب نام ترا لینے سے کترانے لگے ہیں
حالانکہ تجھے دل سے نکالا بھی نہیں ہے
کیوں سرخ ہوا ہے یہ فلک آج سر شام
میں نے تو لہو اپنا اچھالا بھی نہیں ہے
وہ لفظ ہوں میں جو نہ ادا ہو سکا حافظؔ
وہ بات ہوں میں جس کا حوالہ بھی نہیں ہے