Amjad Husain Hafiz Karnataki

امجد حسین حافظ کرناٹکی

امجد حسین حافظ کرناٹکی کی غزل

    عقل سے کام کر

    عقل سے کام کر دہر میں نام کر میں نے دیکھا اسے اپنا دل تھام کر قوم کا ہو بھلا ایسا اقدام کر اپنا ہر رنج و غم تو مرے نام کر زندگی ہے یہی صبح سے شام کر مول اپنا بڑھا مجھ کو بے دام کر دیر حافظؔ نہ ہو جلد ہر کام کر

    مزید پڑھیے

    آدمی نور ہے

    آدمی نور ہے جلوۂ طور ہے رب ہے مختار کل بندہ مجبور ہے نشۂ حرص میں ہر کوئی چور ہے صالحوں کے لیے وعدۂ حور ہے کیا ہے صیہونیت ایک ناسور ہے مغلیہ سلطنت عزم تیمور ہے حافظؔ انسان سے زندگی دور ہے

    مزید پڑھیے

    دور کے ڈھول سہانے ہیں

    دور کے ڈھول سہانے ہیں صدیوں کے افسانے ہیں شمع محبت جل کے سمجھ ہم تیرے پروانے ہیں دل میں اتر کر دیکھو ذرا چاہت کے تہہ خانے ہیں مانگ رہے ہیں تجھ سے وفا ہم بھی کیا دیوانے ہیں یاروں کی بد نیت سے شرمندہ یارانے ہیں حافظؔ اب ٹکڑے ٹکڑے ذہن کے تانے بانے ہیں

    مزید پڑھیے

    یہ راز کوئی جاننے والا بھی نہیں ہے

    یہ راز کوئی جاننے والا بھی نہیں ہے سورج کی وراثت میں اجالا بھی نہیں ہے سو رستے کمانے کے نظر آتے ہیں لیکن کھانے کے لیے ایک نوالہ بھی نہیں ہے لب نام ترا لینے سے کترانے لگے ہیں حالانکہ تجھے دل سے نکالا بھی نہیں ہے کیوں سرخ ہوا ہے یہ فلک آج سر شام میں نے تو لہو اپنا اچھالا بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ کے تارے ٹوٹ گئے

    آنکھ کے تارے ٹوٹ گئے خواب ہمارے ٹوٹ گئے کل موجوں میں جنگ ہوئی اور کنارے ٹوٹ گئے قطرہ قطرہ برف بنا اور فوارے ٹوٹ گئے میری پلکوں سے گر کے آنسو سارے ٹوٹ گئے حافظؔ وقت برا آیا دیکھ سارے ٹوٹ گئے

    مزید پڑھیے

    دیکھو اپنی آنکھ‌ مچولی ایک حقیقت ہو گئی نا

    دیکھو اپنی آنکھ‌ مچولی ایک حقیقت ہو گئی نا تم سے مجھ کو مجھ سے تم کو آج محبت ہو گئی نا میں نے کہا تھا دھوپ میں میرے ساتھ نہ تم چل پاؤ گے میلی میلی تمہاری اجلی چاند سی صورت ہو گئی نا محفل میں ہنستے ہیں لیکن تنہائی میں روتے ہیں ایک سی میری اور تمہاری اب یہ حالت ہو گئی نا دوزخ میں ...

    مزید پڑھیے

    مری وفا کی وہ پہچان بھی نہیں رکھتے

    مری وفا کی وہ پہچان بھی نہیں رکھتے صلہ تو دور ہے احسان بھی نہیں رکھتے وہ برکتوں کے فرشتوں کے انتظار میں ہیں گھروں میں اپنے جو قرآن بھی نہیں رکھتے جنہیں خلوص کی خوشبو عزیز ہوتی ہے وہ اپنی میز پہ گلدان بھی نہیں رکھتے وہ حادثوں سے ڈراتے ہیں اپنے بچوں کو دیوں کے سامنے طوفان بھی ...

    مزید پڑھیے

    کئی جلوے تری پہچان کے دھوکے سے نکلے ہیں

    کئی جلوے تری پہچان کے دھوکے سے نکلے ہیں سیاست سینکڑوں چہرے ترے چہرے سے نکلے ہیں ہمارے دور کے بچے سبق پڑھتے ہیں چاہت کا کتابوں کے بجائے دل ہر اک بستے سے نکلے ہیں ہر اک بھائی کی خواہش ہے کہ بٹوارا ہو اب گھر کا ابھی ہم ملک کی تقسیم کے صدمے سے نکلے ہیں ادھر دیکھو یہاں ماں ہے ادھر ہے ...

    مزید پڑھیے

    گھر آنگن میں پھیلی دھوپ

    گھر آنگن میں پھیلی دھوپ پیلے رنگ میں لپٹی دھوپ روز کتابیں چومتی ہے صبح کی اجلی اجلی دھوپ ہم جب بھی اسکول گئے ہم سے پہلے وہاں تھی دھوپ ہم نہ رکیں گے منزل تک کیسی بارش کیسی دھوپ دھرتی سونا لگتی ہے چمکائے یوں مٹی دھوپ ڈھونڈا تھا ہم نے تو قلم بستے میں سے نکلی دھوپ کرنوں کی ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے سیکھا ہے محبت کرنا

    ہم نے سیکھا ہے محبت کرنا ایک اک دل پہ حکومت کرنا ہم بھی تاریخ بدل سکتے ہیں شرط ہے ہمت و جرأت کرنا زیب دیتا نہیں انسانوں کو کسی انساں کی عبادت کرنا رکھ کے خود اپنی ضرورت کو ادھار پوری اوروں کی ضرورت کرنا شب کی تاریکی میں سیکھا ہم نے چاند تاروں کی تلاوت کرنا آخری سانس تلک جیون ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2