مری وفا کی وہ پہچان بھی نہیں رکھتے

مری وفا کی وہ پہچان بھی نہیں رکھتے
صلہ تو دور ہے احسان بھی نہیں رکھتے


وہ برکتوں کے فرشتوں کے انتظار میں ہیں
گھروں میں اپنے جو قرآن بھی نہیں رکھتے


جنہیں خلوص کی خوشبو عزیز ہوتی ہے
وہ اپنی میز پہ گلدان بھی نہیں رکھتے


وہ حادثوں سے ڈراتے ہیں اپنے بچوں کو
دیوں کے سامنے طوفان بھی نہیں رکھتے


بڑے عجیب مسافر ہیں ہم بھی اے حافظؔ
سفر پہ نکلے ہیں سامان بھی نہیں رکھتے