کئی جلوے تری پہچان کے دھوکے سے نکلے ہیں

کئی جلوے تری پہچان کے دھوکے سے نکلے ہیں
سیاست سینکڑوں چہرے ترے چہرے سے نکلے ہیں


ہمارے دور کے بچے سبق پڑھتے ہیں چاہت کا
کتابوں کے بجائے دل ہر اک بستے سے نکلے ہیں


ہر اک بھائی کی خواہش ہے کہ بٹوارا ہو اب گھر کا
ابھی ہم ملک کی تقسیم کے صدمے سے نکلے ہیں


ادھر دیکھو یہاں ماں ہے ادھر ہے باپ بچوں کا
زمانہ بھر کے سب رشتے اسی رشتے سے نکلے ہیں


رسن تک کوئی جاتا ہے کوئی مقتل تلک حافظؔ
جو رستے حسن والوں کے حسیں کوچے سے نکلے ہیں