Ameer Hamza Salfi

امیر حمزہ سلفی

  • 1996

امیر حمزہ سلفی کی غزل

    اچھا مرا خیال ہے تم کیوں چلے گئے

    اچھا مرا خیال ہے تم کیوں چلے گئے اب تک مجھے ملال ہے تم کیوں چلے گئے شکوہ نہ تھا نہ کوئی شکایت تھی مجھ سے جب پھر تم سے یہ سوال ہے تم کیوں چلے گئے مجھ کو تو ڈس رہی ہیں یہ آیات وصل بھی اور ہجر بھی محال ہے تم کیوں چلے گئے سوچا نہ تم نے میرا کہ کیسے تمہارے بن مشکل یہ سب وبال ہے تم کیوں ...

    مزید پڑھیے

    بن کے آنسو مری آنکھوں میں سمانے والے

    بن کے آنسو مری آنکھوں میں سمانے والے خیر ہو تیری مجھے چھوڑ کے جانے والے آخرش کون سا رستہ ہے جدھر جاتے ہیں چھوڑ کر راہ میں یہ ساتھ نبھانے والے ہم تو شعروں کو اداسی کے سبب کہتے ہیں جانے کیوں جلتے ہیں پھر ہم سے زمانے والے جگہیں کچھ ہوتیں نہیں یار تمہارے لائق ہر جگہ ہوتے ہو تم پاؤں ...

    مزید پڑھیے

    خامشی سے نکلتی بات کا دکھ

    خامشی سے نکلتی بات کا دکھ جانتا ہوں تمہاری ذات کا دکھ نیم شب کی خموشی اور غم دل نوچ لیتا ہے آنکھ رات کا دکھ بس میں شکوہ کناں نہیں تجھ سے مجھ کو ویسے ہے تیری بات کا دکھ ہار کر بھی میں جیت جاؤں گا بس کبھو ہو جو تجھ کو مات کا دکھ تم نے جینا ہے میں نے جینا ہے جاں نکالے گا یہ حیات کا ...

    مزید پڑھیے

    ایک تکلیف پس قلب و جگر ہوتی ہے

    ایک تکلیف پس قلب و جگر ہوتی ہے اکثر اس طرح سے بھی رات بسر ہوتی ہے میں غم شب کو بسر کرتا ہوں مشکل سے میاں شب گزرتے ہی کسی دکھ سے سحر ہوتی ہے ناصحا کچھ تو کمی ہوگی تری بات میں بھی اس لیے تیری نصیحت بے اثر ہوتی ہے دے تو سکتا ہوں جواباً میں تجھے بھی گالی میرے کردار کی توہین مگر ہوتی ...

    مزید پڑھیے

    کیوں ہوا باب وا اداسی کا

    کیوں ہوا باب وا اداسی کا کچھ بگاڑا ہے کیا اداسی کا میں نے کاغذ پہ شعر لکھ کر پھر رنگ اس میں بھرا اداسی کا مسکراتا چلا گیا پھر میں دل بہت تھا جلا اداسی کا تم مرے گھر دوبارہ آئے ہو پھول پھر سے کھلا اداسی کا مری تشنہ لبی مٹا ساقی ایک ساگر پلا اداسی کا کس نے توڑا شجر مرے گھر سے کہ ...

    مزید پڑھیے

    عجب ہوں میں کہ جو خود درد سر بناتا ہوں

    عجب ہوں میں کہ جو خود درد سر بناتا ہوں مکان بن نہیں سکتا میں گھر بناتا ہوں اتارتا ہوں میں وحشت ورق پہ پہلے پھر جو رنگ اداسی کا بھرتا ہوں ڈر بناتا ہوں اڑانا میں نے ہے اونچی اڑان شاہیں کو تو فکر و فن سے میں بھی بال و پر بناتا ہوں کبھی تو کوچ ہی کرنا ہے مجھ کو دنیا سے تو پھر میں کس ...

    مزید پڑھیے

    تجھ سے ملنے کے لیے خود کو سفر پر رکھا

    تجھ سے ملنے کے لیے خود کو سفر پر رکھا زندگی نے مرا غم بار دگر پر رکھا خود دیے میں نے جلائے تری آمد کے لیے اور ہواؤں کو تری خیر خبر پر رکھا کافی کچھ ہارا ہوں میں اور بڑی محنت سے آشیاں میں نے تو سرسبز شجر پر رکھا اس مسیحا نے میاں زخم دیے خود مجھ کو اور الزام کسی اور بشر پر ...

    مزید پڑھیے

    آئے کوئی ہم راز ستم گر کوئی آئے

    آئے کوئی ہم راز ستم گر کوئی آئے حسرت تھی کبھی میرے برابر کوئی آئے آتی ہیں مرے دل کے کواڑوں سے صدائیں اک بار کبھی میرے بھی در پر کوئی آئے ویران پڑی ہے یہ حویلی بھی کبھو کی حسرت ہے کہ اس دل کے بھی اندر کوئی آئے ہم بیٹھے ہیں اس آس پہ کب کے مرے اللہ زر آئے صدف آئے یا گوہر کوئی آئے جس ...

    مزید پڑھیے

    بڑے کٹھن ہیں سبھی راستے محبت کے

    بڑے کٹھن ہیں سبھی راستے محبت کے کہ جان لیوا ہیں یہ حادثے محبت کے ابھی تو تھوڑا سا کاٹا ہے یہ سفر ہم نے کہاں گئے ہیں ترے ولولے محبت کے وہاں وہاں ہی ملی ہیں اداسیاں ہم کو جہاں جہاں سے ملے تبصرے محبت کے ہمیں ہی راس نہیں آئی ہے محبت یہ کسی سے کیا کریں شکوے گلے محبت کے ضرور میں بھی ...

    مزید پڑھیے

    جل کے آتش میں میاں خود کو جلاتے ہیں چراغ

    جل کے آتش میں میاں خود کو جلاتے ہیں چراغ گھپ اندھیرے میں بھی فرض اپنا نبھاتے ہیں چراغ کون کہتا ہے کہ سورج کے برابر ہے چراغ لوگ جاہل ہیں کہ سورج کو دکھاتے ہیں چراغ یہ نہیں دیکھتے سورج بھی یہاں ہیں بیٹھے لوگ پاگل ہیں کہ محفل میں سجاتے ہیں چراغ بھائی ہلکا نہیں لینا ہے کسی ایک کو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2