تجھ سے ملنے کے لیے خود کو سفر پر رکھا

تجھ سے ملنے کے لیے خود کو سفر پر رکھا
زندگی نے مرا غم بار دگر پر رکھا


خود دیے میں نے جلائے تری آمد کے لیے
اور ہواؤں کو تری خیر خبر پر رکھا


کافی کچھ ہارا ہوں میں اور بڑی محنت سے
آشیاں میں نے تو سرسبز شجر پر رکھا


اس مسیحا نے میاں زخم دیے خود مجھ کو
اور الزام کسی اور بشر پر رکھا


میری منزل میں رکاوٹ نہ بنے گا حمزہؔ
اس نے پتھر جو مری راہ گزر پر رکھا