آئے کوئی ہم راز ستم گر کوئی آئے

آئے کوئی ہم راز ستم گر کوئی آئے
حسرت تھی کبھی میرے برابر کوئی آئے


آتی ہیں مرے دل کے کواڑوں سے صدائیں
اک بار کبھی میرے بھی در پر کوئی آئے


ویران پڑی ہے یہ حویلی بھی کبھو کی
حسرت ہے کہ اس دل کے بھی اندر کوئی آئے


ہم بیٹھے ہیں اس آس پہ کب کے مرے اللہ
زر آئے صدف آئے یا گوہر کوئی آئے


جس نے کبھی بستی سے نکالا مجھے حمزہؔ
اب اس کی یہ حسرت کہ میسر کوئی آئے