اک جہل کے سیلاب میں جو بہتے ہیں
اک جہل کے سیلاب میں جو بہتے ہیں اک عالم موہوم میں جو رہتے ہیں کم ظرف و کم اندیش ہیں کج فہم ہیں جو بے وجہ وہ اردو کو برا کہتے ہیں
اک جہل کے سیلاب میں جو بہتے ہیں اک عالم موہوم میں جو رہتے ہیں کم ظرف و کم اندیش ہیں کج فہم ہیں جو بے وجہ وہ اردو کو برا کہتے ہیں
ہونٹوں سے لگاتا ہے کوئی جام کہاں اب وجد میں آتے ہیں در و بام کہاں دن رات گلو گیر ہو جب فکر معاش پھر عشق کا لیتا کوئی نام کہاں
مت کہیو زباں ہے یہ مسلمانوں کی اردو تو ہے دنیا کے سب انسانوں کی بازار میں دفتر میں گلی کوچوں میں محبوب زباں ہے یہ سخن دانوں کی
کیوں ان کو ستانے میں مزا آتا ہے دل میرا دکھانے میں مزا آتا ہے میری تو کوئی بات وہ سنتے ہی نہیں اپنی ہی سنانے میں مزا آتا ہے
الزام لگایا ہے تو ثابت بھی کرو سچی ہے اگر بات تو بے خوف کہو لیکن تمہیں غلطی کا اگر ہے احساس پھر اس کی تلافی میں بھی تاخیر نہ ہو
بے کیف ہیں دن رات کہوں تو کس سے یہ صورت حالات کہوں تو کس سے دنیا میں کوئی مونس و غم خوار نہیں میں دل کی اگر بات کہوں تو کس سے
بیکس کی کوئی کس لیے امداد کرے پامال ہیں جو کون انہیں یاد کرے فرصت کسے دہر میں دل جوئی کی مظلوم کوئی کرتا ہے فریاد کرے
اک وہ ہیں کہ انکار کئے جاتے ہیں اک ہم ہیں کہ اصرار کئے جاتے ہیں مانے ہیں نہ مانیں گے گزارش اپنی بے فائدہ تکرار کئے جاتے ہیں
کیا تم نے مرا حال زبوں دیکھا ہے ہر حسرت و امید کا خوں دیکھا ہے اٹھ بیٹھا ہوں سو بار میں سوتے سوتے یہ وحشت و انداز جنوں دیکھا ہے
اس دہر میں اب کس پہ بھروسہ کیجے کس شخص کا مشکل میں سہارا کیجے ہے کس کو غرض کام کسی کے آئے کس آس پر آواز کسی کو دیجے