امیر چند بہار کی غزل

    بجھ جائے دل بشر کا تو اس کو شفا سے کیا

    بجھ جائے دل بشر کا تو اس کو شفا سے کیا کس درجہ ہوگی کارگر اس کو دوا سے کیا جھلسا کے رکھ دیا جسے باد سموم نے غنچوں سے کیا غرض اسے باد صبا سے کیا دو وقت جس غریب کو روٹی نہ ہو نصیب مذہب کا کیا کرے اسے ذکر خدا سے کیا رہنے کو جھونپڑا بھی نہ جس شخص کو ملے اس کو سزا کی فکر کیا اس کو جزا سے ...

    مزید پڑھیے

    دولت دنیا کہاں درکار ہے

    دولت دنیا کہاں درکار ہے مجھ کو تیرا آستاں درکار ہے آپ کو بھی اک سہارا چاہیے مجھ کو بھی اک ہم زباں درکار ہے زندگی کی اس کڑکتی دھوپ میں سایۂ سرد رواں درکار ہے برق و باراں کا اڑائے جو مذاق آج وہ عزم جواں درکار ہے زندگی سے ہے عبارت اک جہاد شیر کی تاب و تواں درکار ہے تیر و نشتر ...

    مزید پڑھیے

    لازم ہے لائیں ڈھونڈ کر خود کو کہیں سے ہم

    لازم ہے لائیں ڈھونڈ کر خود کو کہیں سے ہم کیا بے نیاز ہو گئے دنیا و دیں سے ہم محسوس ہو رہا ہے ہمیں تم سے مل کے آج جیسے پہنچ گئے ہوں فلک پہ زمیں سے ہم دنیائے پرف فریب کے انداز دیکھ کر دل یوں بجھا کہ ہو گئے خلوت نشیں سے ہم اس جان آرزو سے ملاقات یوں ہوئی مدت کے بعد جیسے ملے ہوں ہمیں سے ...

    مزید پڑھیے

    عشق میں ضبط فغاں درکار ہے

    عشق میں ضبط فغاں درکار ہے بے زبانی کی زباں درکار ہے دیر و کعبہ سے نہیں کوئی غرض مجھ کو تیرا آستاں درکار ہے وحشت دل کا ہو کوئی تو علاج صحبت پیر مغاں درکار ہے میرے دل کی سمت وہ نظریں اٹھیں بجلیوں کو آشیاں درکار ہے شوق سے آ کر مرے دل میں رہیں آپ کو خالی مکاں درکار ہے ان گھنی ...

    مزید پڑھیے