بجھ جائے دل بشر کا تو اس کو شفا سے کیا
بجھ جائے دل بشر کا تو اس کو شفا سے کیا کس درجہ ہوگی کارگر اس کو دوا سے کیا جھلسا کے رکھ دیا جسے باد سموم نے غنچوں سے کیا غرض اسے باد صبا سے کیا دو وقت جس غریب کو روٹی نہ ہو نصیب مذہب کا کیا کرے اسے ذکر خدا سے کیا رہنے کو جھونپڑا بھی نہ جس شخص کو ملے اس کو سزا کی فکر کیا اس کو جزا سے ...