یومِ آزادی کا پیغام نوجوانوں کے نام: 14 اگست پر تقریر

صاحب صدر اور میرے عزیز ہم مکتب ساتھیو!

السلام علیکم!
ہم آج وطن عزیز کی سالگرہ کے پرمسرت موقع پر یہاں جمع ہوئے ہیں ۔۔۔ اور مجھے جس موضوع پر لب کشائی کرنے کا موقع دیا گیا ہے وہ ہے "جشن آزادی اور ہم"...!
صاحب صدر!
میرے لیے 14 اگست محض ایک تاریخ نہیں ہے ۔۔۔ بلکہ 14 اگست وہ امانت ہے جو میرے پورکھوں نے لاکھوں قربانیاں دینے کے بعد میرے حوالے کی ہے ۔۔۔ اور مجھے بنا کسی قربانی کا دریغ کیے اسے اگلی نسلوں تک منتقل کرنا ہے ۔۔۔ 14 اگست وہ تشخص ہے جو مجھے ساری دنیا سے جدا مقام دیتا ہے ۔۔۔ 14 اگست وہ سحر ہے جس کی تلاش میں کئی ستارے ڈوب گئے ۔۔۔ 14 اگست وہ پیغام ہے جسے مجھ تک پہچانے کے لیے نجانے کتنے قاصد راستوں کی دھول ہو گئے ۔۔۔ کتنے دل ملول ہو گئے اور کتنے اشک بے مول ہو گئے ۔۔۔ میرے لیے 14 اگست محض ایک تاریخ نہیں ہے ۔

ملا نہیں وطنِ پاک ہم کو تحفے میں
جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا
جناب صدر!
14 اگست کا دن میرے سال کے تین سو پینسٹھ دنوں کا سردار دن ہے ۔۔۔ یہ دن ہے تو میری عیدیں ہیں ۔۔۔ یہ دن ہے تو میری خوشیاں ہیں ۔۔۔ یہ دن ہے تو سب بہاریں ہیں ۔۔۔ یہ دن ہے تو سب نظارے ہیں ۔۔۔ میری زندگی ، میری بندگی ، میری دلکشی ، میری تازگی ، میری روشنی، میری آگہی ، میری شاعری ، میری موسیقی و مصوری ۔۔۔ سب کچھ ہے ۔۔۔ اگر یہ دن میرے مقدر کی پیشانی پر کندہ ہے!

بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اِس خا ک سے ہے
جناب صدر!
یہ مملکت خداد محض ایک ملک نہیں ہے ۔۔۔ یہ حضرتِ اقبال کے خوابوں کی تعبیر ہے ۔۔۔۔ یہ قائد اعظم کے سارے جذبوں کی تصویر ہے ۔۔۔ یہ کاتب تقدیر کی اک انمٹ سی تحریر ہے ۔۔۔   میری سانس پاکستان ہے ۔۔ میری آس پاکستان ہے۔۔۔ احساس پاکستان ہے ۔۔۔ صد شکر ہے میرے مولا کا۔۔۔ میرے پاس پاکستان ہے۔۔۔ اسی انمول تحفے کے لیے رب ذوالجلال کا شکر ادا کرنے کو یہ دن منایا جا رہا ہے جسے جشن آزادی یا یوم آزادی کا نام گیا ہے۔
صاحب صدر!
آج کے دن ہمیں اپنے آباء و اجداد کی بےمثال قربانیوں کو بھی خراج عقیدت پیش کرنا ہے اور اس بے پایاں رحمت ایزدی پر سجدہ شکر بھی ادا کرنا ہے ۔۔۔ ہمیں ان ماؤں کے بیٹوں کو خراجِ محبت پیش کرنا ہے جہنوں نے اس دیس کے چپے چپے ۔۔۔ گوشے گوشے سے یہ عہد کیا تھا کہ:
خون دل دے کے نکھاریں گے رخِ برگِ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے!
اپنی گفتگو کے آخر میں مَیں بصد رنج و ملال یہ عرض کرنا چاہوں گا/ گی کہ وطن عزیز اس وقت اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے ۔۔۔ کچھ ہماری اپنی نادانیاں ہیں اور کچھ دشمنوں کی ریشہ دوانیاں ۔۔۔ ہر طرف بھوک ، افلاس کے ڈیرے ہیں ۔۔ گھمبیر اندھیرے ہیں ۔۔۔ بڑی دور سویرے ہیں ۔۔۔ صنعت و حرفت ، معیشت، تجارت ۔۔ ہر شعبہ خسارے میں ہے ۔۔ بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے ۔۔۔ سیاسی ، لسانی اور مذہبی اختلافات نے  شدت پسندی کو فروغ دینا شروع کر دیا ہے۔۔۔۔ 
لیکن میرے عزیزو!
ہمیں پھر ابھرنا ہے ۔۔۔ اپنی آن بان کی خاطر ۔۔۔پھر اپنی پہچان کی خاطر ۔۔۔ پیارے پاکستان کی خاطر ۔۔۔ 
یاد رکھیے!
ہم کو یہ شعلے نہیں ، چاہت کی شبنم چاہئے
ہم کو یہ خنجر نہیں ، زخموں کا مرہم چاہئے
مستقل نفرت کے بدلے ، عشقِ پیہم چاہئے
متحد ہوکر جئیں ، تو ایک طاقت ہم بھی ہیں
گر سلامت یہ وطن ہے ، تو سلامت ہم بھی ہیں

متعلقہ عنوانات