یومِ آزادی مبارک: قیامِ پاکستان کی ضرورت ہی کیا تھی؟

پاکستان جو آج دنیا کی واحد جوہری صلاحیت کی حامل اسلامی ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر اسلامیانِ عالم کی تمام تر امنگوں اور آرزوؤں کا ضامن بنا ہوا ہے اسے برصغیر کے مسلمانوں نے لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا ۔ آج ہم پاکستانی اللّٰہ کریم کی اس نعمتِ عظمیٰ کے لیے سجدہ شکر ادا کر رہے ہیں ۔ باباجی اشفاق احمد صاحب پاکستان کو قدرت کے رازوں میں سے ایک راز قرار دیتے تھے ۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان حضرت صالح علیہ السلام کی اس اونٹنی کی طرح ہے جو ایک معجزے سے وجود میں آئی تھی ۔

حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ کا یہ قول ان کے مزار کی عمارت پہ مرقوم ہے:
"پاکستان نور ہے۔ نور کو زوال نہیں"
پیر جماعت علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ خود کو قائد اعظم کا ایک سپاہی کہا کرتے تھے ۔آخر کیا وجہ ہے کہ اتنی معتبر ہستیاں پاکستان کے حصول اور اس کی بقاء کو اس قدر اہمیت دیتی تھیں ۔ کوئی تو ایسا کام تھا جو اس پاک سرزمین کے لیے قسام ازل نے لکھ چھوڑا تھا جو یہ بزرگان دیوانہ وار اس کے لیے کوششیں کرتے رہے ہیں ۔ ہمارے محبوب لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللّٰہ علیہ کے اس قول سے ہمیں اس عظیم کام کا سراغ ملتا ہے جس کے لیے قیام پاکستان بہت ضروری تھا:
"‏ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا - بلکہ ہم ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھےجہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں‘‘-
(قائد اعظم)
 ہمارے بزرگوں نے ، جن کا نعرہ ہی پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ تھا، خون کی ندیاں عبور کر کے یہ چھوٹا سا زمین کا ٹکڑا اس لیے حاصل کیا تھا کہ وہ اس زمین پر ایسی فصل بونا چاہتے تھے جس کا خمیر لاالہ الااللہ سے اٹھا ہو ۔۔۔ جو اسلام کی فضا میں پک کر تیار ہوئی ہو اور جس کا پھل عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معمور ایک نئی نسل ہو۔ جن کو اپنی اصل اور اپنی تاریخ کی آگہی ہو۔ جو اپنی زندگی اسلام کے زریں اصولوں کے تحت گزارنے میں فخر محسوس کرے۔ یہی حضرتِ اقبال علیہ رحمۃ بھی چاہتے تھے جس کا ثبوت ان کا یہ شعر ہے: 

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

 دو قومی نظریہ بھی در اصل اسی سوال کا جواب تھا کہ پاکستان کیوں ضروری ہے ۔ قائد اعظم نے ان الفاظ میں اس بات کی وضاحت فرمائی تھی:
”ہندو اور مسلمان دو الگ مذہبی فلسفوں، سماجی رواجات اور ادبیات سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ نہ تو آپس میں شادیاں کرتے ہیں اور نہ ہی اکھٹے کھانا کھاتے ہیں اور یقیناً وہ دو مختلف تہذیبوں کے نمائندے ہیں جن کی بنیاد متصادم نظریات اور تصورات پر ہے۔"
 ہندو اور مسلمان دونوں قوموں کے نظریات میں محض تفریق نہیں بلکہ تضاد تھا جو ان کے تصادم کو ناگزیر بناتا تھا۔   حالیہ دنوں میں مودی سرکار کی سرکردگی میں مسلمانوں کے لیے جو عرصہ حیات تنگ کر دینے کے واقعات آئے دن سامنے آ رہے ہیں وہ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ پر مہر تصدیق ثبت کر دیتے ہیں۔  انتہا پسند ہندوؤں کے  مظالم ہی اس سوال کا جواب دینے کے لیے کافی ہیں کہ پاکستان کیوں ضروری تھا ۔ پچھلے دنوں انڈین پنجاب میں کسانوں کے استحصال کے خلاف ہونے والے احتجاج میں تو سکھ بھی قائد اعظم کے حق پر ہونے کو تسلیم کرتے ہوئے نظر آئے ۔ دامن جیت سنگھ نامی تاجر کی یہ مختصر ٹویٹ جو اب ان کی ٹائم لائن پر نہیں ہے ، قائد اعظم کی دور اندیشی کو غیروں کی زبان سے خراج عقیدت ہی لگتا ہے ۔ ٹویٹ کے الفاظ تھے:


“I think Jinnah was right. Sorry Pakistan,” 
آج جب کہ ہم اپنے وطن عزیز کا پچھترواں یوم آزادی منا رہے ہیں تو اشد ضروری ہے کہ اس سوال کا جواب نئی نسل کے ذہنوں میں وضع کیا جائے کہ پاکستان کیوں ضروری ہے ۔
صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب جو مسلم انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین اور حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین ہیں پاکستان کے قیام کے حوالے سے یوں اظہار خیال کرتے ہیں:
" پاکستان کی تشکیل اور تعمیر لاالہ پر تھی ، لا الہ پر ہے اور ان شاءاللہ یہ ملک اسی بنیاد پر قائم رہے گا "
وہ موجود نسل میں پاکستانیت کے فروغ کو اسی قدر اہم گردانتے ہیں جتنی اہم نسل نو کی روحانی ، اخلاقی اور دینی تربیت ہے ۔ ان کا کہنا ہے:
"جہاں ہمیں اخلاقی و روحانی تربیت کی ضرورت ہے وہاں ہمیں قومی تربیت کی بھی ضرورت ہے ،کیونکہ جس عقیدے سے ہم محبت کرتے ہیں ، وہ ہمیں پاکستان سے محبت سکھاتا ہے ۔"
قصہ مختصر یہ کہ:
قدرٍ آزادی کرو ورنہ رفیقانٍ بہار
گر یہ آزادی کسی سے روٹھ جائے ایک بار
کرنا پڑتا ہے اسے پھر صدیوں اس کا انتظار
صبح آزادی کا سورج جسم و جاں کا قرض ہے
اس کی کرنوں کی حفاظت اب تمہارا فرض ہے

متعلقہ عنوانات