یومِ دفاعِ پاکستان پر تقریر:مڈل اور پرائمری سکول کے طلبہ کے لیے (2)

یومِ دفاع پاکستان 6 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ کل سے سکولوں میں یوم دفاع کی تقاریب کا آغاز ہونے جارہا ہے۔ مڈل اور پرائمری سکول طلبہ کے لیے بہترین تقریر پیش خدمت ہے

 

یومِ دفاع پر ہائی اور کالج کے طلبہ کے تقریر کے لیے یہاں کلک کیجیے

اربابِ محفل اور صدرِ ذی وقار!

آج ہم یوم دفاعِ پاکستان منا رہے ہیں ۔۔۔ 6 ستمبر کا دن  تاریخ پاکستان کے فلک کا وہ روشن ستارہ ہے جس سے ہماری آنے والی نسلیں بھی اپنی سمت کا تعین کریں گی ۔۔۔ یہ دن انہیں ہمیشہ یادہانی کرواتا رہے گا کہ وہ کیا گردوں تھا جس تو وہ ہیں اک ٹوٹا ہوا تارا ۔۔۔!
صدر مکرم!
وطن عزیز کا ذرہ ذرہ ہمیں اپنی جاں سے عزیز تر ہے ۔ اس کا چپہ چپہ ، قریہ قریہ ،گوشہ گوشہ ہمیں اپنی جاں سے پیارا ہے ۔ اس کے کھیتوں کے کھلیان ،اس کی پگڈنڈیاں ، اس کے ممبر و محراب اور مسجدوں کے مینار ہماری آن بان اور شان ہیں اور ہمیں اپنی آن کی حفاظت خوب کرنا آتی ہے ۔ اس دیس کی محبت ہماری رگ رگ میں ہے ۔۔۔ نس نس میں ہے۔۔ دھڑکن میں ہے۔۔۔ ہر ایک موئے بدن میں ہے۔
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی
جناب صدر!
یہی وہ جذبہ تھا جو 6 ستمبر 1965 کو اس دیس کے ہر بچے  بوڑھے جوان مرد و زن کی رگوں میں خون کی مانند گردش کر رہا تھا اور وہ بزدل دشمن جو رات کی تاریکی میں اس ملک خداداد کی سالمیت پر نقب زنی آیا تھا ۔۔۔ منہ کی کھا کر لوٹا۔ دشمن کو اپنی چالاکی ، مکاری اور عسکری قوت پر ناز تھا ۔ اسے اپنی کثرت مال و متاع پہ گھمنڈ تھا ۔۔۔لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے ۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس قوم کا ہر بچہ ماں کی گود میں لوری کی بجائے قرآن سن کر اور جن پریوں کی کہانیوں کی جگہ خالد بن ولید (رض) اور حیدر کرار کرم اللہ وجہہ کی شجاعت کے قصے سن کر جوان ہوتا ہے ۔ اس قوم کا سپاہی شمشیر پہ نہیں بلکہ رب عرشِ عظیم کی مدر اور نصرت پر یقین رکھتا ہے ۔ ہماری قوم کے جوانوں نے سینوں پہ بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کو تہس نہس کر کے یہ ثابت کر دیا کہ:
کافر ہو تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
صدر محتشم!
1965 کی جنگ بھارت کے ناپاک عزائم اور خباثت باطنی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ لیکن ہندوستان کی ٹڈی دل فوج کے دانت پاک فوج نے اس طرح کھٹے کر دیے اور ایسی کاری ضرب لگائی کہ ایک عرصے تک دشمن اس ضرب کے زخموں کو چاٹتا رہا ۔ پاک فوج نے دشمن پر یہ واضح کر دیا کہ ہم میں آج بھی وہی خون ہے جو ٹیپو سلطان، حیدر علی،  یوسف بن تاشفین اور محمد بن قاسم کی رگوں میں جوش مارتا تھا ۔ ستمبر 65ء کی جنگ میں اس دیس کا بچہ بچہ اس وطن کی حرمت پر پہریدار بن گیا تھا اور اس کی حفاظت کے لیے کٹ مرنے کو تیار ہو گیا تھا ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس وطن کے عوام اپنے ملک و ملت ، اپنے دین اور اپنی سالمیت کے لیے تن من دھن نچھاور کر دینے کو تیار ہو گئے تھے ۔ اس جنگ میں عوام اور فوج کا حوصلہ اور ان کی ہم آہنگی بے مثال اور لا جواب تھا ۔ ہر فرد جو اس ملت کے مقدر کا ستارہ تھا ۔۔۔ اس روز یہ پکارا تھا۔
میرا دشمن مجھے للکار کے جائے گا کہاں
خاک کا طیش ہوں ، افلاک کی دہشت ہوں میں
صدر عالی مقام!
آج جب ہم اس جزبہ دل کو یاد کر رہے ہیں جو منزل کے لیے دو گام چلنے پہ مطلوب و مقصودِ مسافر قدموں میں ڈھیر کر دیا کرتا تھا تو ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہے کہ کیا آج بھی ہم ویسے ہی ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارا پیارا پاکستان آج سیاسی ، معاشی ، اقتصادی اور انتظامی توڑ پھوڑ کا شکار ہوتا جا رہا ہے ۔ ہم تقسیم در تقسیم ہوتے ہوئے اپنی اپنی ذات تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں ۔ہم بھول گئے ہیں کہ ہمارے حکیم الامت نے ہمیں یہ درس دیا تھا کہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
حاضرین مجلس اور نہایت عالی مرتبت صدر ذیشان!
آج میری دست بستہ التماس ہے کہ یوم دفاعِ پاکستان پہ ہمیں تجدید عہد وفا کرنا چاہیے ۔۔ ہمیں اختلاف و افتراق اور انتشار کی راہ ترک کر کے محبت ، یگانگت ، اتفاق و اتحاد کی راہ چلنا ہوگا ۔۔۔کہ یہی راہ بقائے ملت کی ضامن ہے ۔۔۔اور یہی راہ دفاع وطن کو ناقابلِ تسخیر بنانے کی منزل تک پہنچاتی ہے ۔۔!
یہ دنیا نفرتوں کے آخری اسٹیج پہ ہے 
علاج اس کا محبت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

متعلقہ عنوانات