یوم دفاع پاکستان: نورجہاں کے جنگی ترانے ہتھیار بن گئے

شاعر ، ادیب ،گلوکار، موسیقار ۔۔۔۔ سب فن کار کسی بھی معاشرے کے حساس ترین لوگ ہوتے ہیں جو ایک عام انسان سے زیادہ شدت اور گہرائی کے ساتھ ہر جذبے کو محسوس کرتے ہیں۔اس حقیقت کی ایک زندہ مثال چشم فلک نے ستمبر 1965 کی پاکستان بھارت جنگ کے دوران دیکھی جب پاکستان کے محب وطن فنکاروں نے فن کے محاذ پر اپنے دن رات ایک کر کے وطن کے سجیلے جوانوں کے لیے جذبوں کو گرما دینے والے ترانوں کمک بہم پہنچائی۔ فنکاروں کی فوج میں جو نام سر فہرست نظر آتا ہے وہ ملکہ ترنم نور جہاں کا ہے جو اپنے حب الوطنی سے لبریز گیتوں کے ذریعے پاکستانیوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی ۔

نورجہاں نے 1965 میں بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے قوم اور فوج کے جذبے کو پَر لگا دیے ۔ اگرچہ 1965 کی جنگ میں متعدد پاکستانی گلوکاروں نے اہم کردار ادا کیا لیکن ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے بہادر سپاہیوں کی حوصلہ افزائی میں میڈم کا کردار سب سے اہم کردار تھا۔

 مہدی حسن، عالم لوہار، سلیم رضا اور دیگر نے بھی قوم کے جذبوں کو گرمانے اور دشمن کو یہ دکھانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا کہ وہ خود اعتمادی اور غیر متزلزل ایمان سے لیس ہیں اور اس قوم کو شکست دینا ناممکن ہے۔

1965 کی جنگ اور نورجہاں کے جنگی ترانے:

 ملکہ ترنم نور جہاں کے جنگی ترانےوں سے متعلق سابق فوجی مرتضیٰ عباسی کہتے ہیں:

"ان کے نغمے حب الوطنی اور قوم پرستی کی موجیں پیدا کرتے تھے جن کی بدولت ہر پاکستانی اپنی جان قربان کرنے اور افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے تیار تھا۔"

جنگ 1965 کی پاکستانی فتح میں آدھا کریڈیٹ نورجہاں کے نام

 میڈم نورجہاں صرف ایک گلوکارہ نہیں تھیں بلکہ قوم کی ایک بہادر بیٹی تھیں جنہوں نے دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے لڑنے والے فوجیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ذاتی طور پر سرحدوں کا دورہ کیا۔فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے 23 مارچ 1966 کو اعتراف کیا تھا :

" 1965 (کی جنگ میں پاکستان) کی فتح کا آدھا کریڈٹ نور جہاں کو جاتا ہے۔"

امن کے دور میں گلوکارہ کے طور پر ان کا کردار قوم میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے بھی یاد رکھا جائے گا۔

"میریا ڈھول سپاہیا " فضائی حملے کے دوران ریکارڈ ہوا:

شاہد لطیف صاحب کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ستمبر 1965 میں ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے جنگی ترانوں کے پروڈیوسر اعظم خان نے ملکہ ترنم نور جہاں کے جذبہ حب الوطنی کا ایک دلچسپ واقعہ یوں بیان  کیا:

” اس زمانے میں ریڈیو پاکستان کے احاطے میں ہوائی حملے سے بچاؤ کے لئے خندق کھدی ہوئی تھی۔ جب خطرے کا سائرن بجتا سب اس میں چلے جاتے تھے۔ ریڈیو اسٹیشن پر ایک طیارہ شکن توپ بھی نصب تھی۔ ایک دن خطرے کا سائرن ہوا۔ میں نے کہا ' میڈم خندق میں چلیں کہیں ہوائی حملہ نہ ہو جائے' ۔

' مریں گے تو یہیں مریں گے۔ کام چھوڑ کر نہیں جا سکتے!' ۔ میڈم نے جواب دیا۔ اسی دوران ان کی بیٹی ظل ہما کا فون آیا کہ جلدی گھر آ جائیں۔ ہر طرف ہوائی حملے کے سائرن بج رہے ہیں۔ میڈم نے اپنی بیٹی سے بھی یہی کہا کہ وہ کام چھوڑ کر نہیں آ سکتیں“

نورجہاں کا پہلا  جنگی ترانہ "میریا ڈھول سپاہیا" کب ریکارڈ ہوا؟

اعظم خان صاحب کا کہنا ہے کہ جب 6 ستمبر 1965 کو بھارت نے پاکستان پر شب خون مارتے کی ناپاک جسارت کی تو دو دن بعد ملکہ ترنم نور جہاں نے خود ریڈیو اسٹیشن فون کر کے پاک فوج کے لیے ترانے ریکارڈ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ ہنگامی طور پر سازندوں ، گیت کاروں ، موسیقاروں اور پروڈیوسرز کو ریڈیو اسٹیشن جمع کیا گیا ۔  اسی نامور شاعر صوفی تبسّم صاحب نے بیٹھے بیٹھے ایک ترانے کے بول لکھے ، اسی وقت اس کی دھن ترتیب کر کے دستیاب سازندوں سے کام لیتے ہوئے نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کر لیا گیا ۔ ترانہ تھا:

میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں

تینوں تک دیاں اج سارے جگ دیاں اکھاں

" میرا ماہی چھین چھبیلا ہائے کرنیل نی جرنیل نی" نے فوجیوں کی ہمت بڑھائی:

اس دن کے بعد روزانہ کی بنیاد پر ایک ترانہ ریکارڈ کیا جاتا اور ہر نئے ترانے میں افواج پاکستان کے ایک نئے پہلو کو اجاگر کیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر پہلے دن  کا نغمہ اگر سپاہیوں کے بارے میں تھا تو اگلے دن کا فوج کے افسران کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا ۔ ترانے کے بول تھے:

"میرا ماہی چھیل چھبیلا ہائے نی کرنیل نی جرنیل نی"

اس نغمے کی شاعری بھی صوفی تبسّم نے لکھی تھی اور اس کی دھن ملکہ ترنم اور اعظم خان صاحب نے مل کر ترتیب دی تھی ۔

"اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے" گیت سے فوجی جوانوں کے حوصلوں کو پَر لگ گئے:

تیسرے روز صوفی تبسّم صاحب ہی کا لکھا ہوا ترانہ نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا جو وطن عزیز کی سلامتی اور دفاع کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے جوانوں کے لیے خراجِ عقیدت و محبت کا اظہار تھا ۔ اس ترانے کو سن کر جہاں شوق شہادت تازہ ہوتا ہے وہاں آج بھی کئی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں:

اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے

کی لبنی اے وچ بازار کڑے

یہ گیت اعظم خان صاحب نے خود کمپوز کیا تھا ۔ ان کا کہنا ہے جب اسے ریکارڈ کیا گیا تو وہ خود رو رہے تھے۔یہ گیت راگ بھیرویں میں ترتیب دیا گیا تھا اور تین گھنٹوں میں ریکارڈ ہوا تھا۔  ریکارڈنگ کے دوران سازندے، صوفی تبسّم صاحب، دیگر سٹاف اور میڈم نور جہاں خود بھی رو رہی تھیں۔ سٹوڈیو میں عجیب ماحول طاری تھا ۔ اس گیت کے بعد "رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو" ریکارڈ کیا گیا جو تنویر نقوی صاحب نے لکھا تھا۔

"یہ ہواؤں کے مسافر یہ سمندروں کے راہی" پانچواں جنگی ترانے:

ملکہ ترنم نور جہاں نے جو پانچواں ترانہ ریکارڈ کروایا وہ بھی صوفی تبسّم صاحب کا لکھا ہوا تھا ۔ اس ترانے میں بحری ، بری اور فضائی تینوں افواج کو خراج عقیدت پیش کیا گیا تھا ۔ نغمے کے بول تھے:

یہ ہواؤں کے مسافر یہ سمندروں کے راہی

میرے سر بکف مجاہد میرے صف شکن سپاہی

کلامِ اقبال اور 1965 کی جنگ؛ جب " ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن" نورجہاں کی آواز میں نشر ہوا:

 

ان ترانوں کے علاوہ انہیں دنوں میں سے کسی روز ملکہ ترنم نے اپنی اور اعظم خان صاحب کی مشترکہ کمپوزیشن میں کلام اقبال بھی ریکارڈ کروایا جو جنگ کے دنوں میں کچھ اور ہی سحر رکھتا تھا:

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن

گفتار میں، کردار میں اللہ کی برہان

جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم

دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن

قاری نظر آتا ہے ، حقیقت میں ہے قرآن

رودادِ بہت طویل ہے ۔۔۔ لیکن اس مختصر سے تذکرے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جنگ ستمبر میں ہوا کے دوش پر  پاک فضائیہ کے لڑاکا طیارے کے ساتھ ساتھ ملکہ ترنم نور جہاں اور دیگر گلوکاروں کے ترانے بھی دشمن پر قہر بن کر ٹوٹے تھے ۔

متعلقہ عنوانات