یومِ دفاعِ پاکستان پر تقریر؛ہائی اور کالج طلبہ کے لیے خصوصی تحریر

یومِ دفاعِ پاکستان یعنی 6 ستمبر کے موقع پر سکول طلبہ کے لیے تقریر پیشِ خدمت ہے:

یوم دفاع پاکستان پر تقریر :مڈل اور پرائمری سکول طلبہ کے لیے یہاں کلک کیجیے

میں ابتدائے سُخن کرتا ہوں

داوَرِ محشر کے نام سے

میں اِذنِ کلام کرتا ہوں

گیتی آفریں کے گُہر پاش نام سے

میرے خیالوں کو مہمیز کرتا ہے جو

نامِ مالکِ سہت و بُود، مالکِ صبح و شام سے

جنابِ صدر ، حاضرین صد احترام ۔۔۔۔۔۔۔السلام علیکم !

آج اظہارِ گُفتار کے لیے مجھے موضوع دیا گیا ہے:

"یومِ دِفاعِ پاکستان"

حسبِ موقع ، حسبِ مقدور اپنی سی کوشش کروں گا کہ اس بے کراں موضوع سے انصاف کرپاؤں۔

گلوں کی باس، چمن کا نکھار زندہ رہے

خزاں بھی ٹوٹے تو لُطفِ بہار زندہ رہے

ہزار بار میں پیوندِ خاک ہوجاؤں

میرا وطن میرے پروَردگار زندہ رہے

جنابِ صدر!

            وہ گہری شب ، وہ اندھیروں میں لپٹے بام ودَر، وہ فضاؤں میں چھایا سکوت گواہ تھے کہ کس طرح کرگس شاہینوں کی سرزمین پر شب خوں مارنے چلے آئے تھے، کس طرح کالی ماتا کے پیروکار، اندھیروں کے باسی اُس سرزمین پر چڑھ دوڑے تھے جس کا ذرہ ذرہ نُور میں گُندھا ہے، کس طرح فتح کے خواب لیے وہ دبے پاؤں بڑھتے چلے آئے تھے۔

جنابِ صر!

            یہ دھرتی ، یہ پاک دھرتی ، یہ شہدا کے لہو سے سینچی ہوئی دھرتی، یہ جیالوں کی سرزمین، یہ کلمہ گو مسلمانوں کی سرزمین، یہ مادرِ گیتی، یہ خطہ زریاب، یہ دلاورانِ وفا کیش کی دھرتی، یہ اولیائے کرام کی دھرتی، یہ کلمے کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آںے والی دھرتی، یہ جنت جیسی دھرتی،یہ شُہدا کے خون سے بَنا پانے والی دھرتی۔۔۔۔جنابِ صدر۔۔۔! یہ دھرتی ترنوالہ تو نہ تھی، یہ دھرتی آسان ہدف تو نہ تھی، یہ دھرتی طشتری میں تو نہ رکھی تھی، یہ دھرتی شاخِ بوسیدہ پر لرزیدہ پَتا تو نہ تھی، یہ دھرتی بے وارث تو نہ تھی، یہ دھرتی بے نگہباں تو نہ تھی، یہ دھرتی آماجگاہِ کم حوصلاں تو نہ تھی، یہ دھرتی گیدڑوں کا ٹھکانہ تو نہ تھی، یہ شارعِ عام کے کنارے لگے درخت کا پھل تو نہ تھی کہ جو چاہے لپکا چلا آئے، پھر کیوں۔۔۔۔ جنابِ صدر! آخر کیوں ۔۔۔۔کس زُعم میں میرا ہمسایہ مجھ پر چڑھ دوڑا تھا۔

صبح کے نور میں لپٹا ہوا توپوں کا دُھواں

یوں میرے گھر کے بام و دَر سے ٹکرایا تھا

جیسے بھونچال کی ہیبت کا پیمبر بن کر

کوئی لاوا کسی وادی میں اُتر آیا تھا

میں حیرت کے دریچوں سے جو باہَر جھانکا

میرا گھر پھونکنے والا میرا ہمسایہ تھا

جنابِ صدر!

اُسے خبر نہ تھی کہ اُس نے کس قوم کو للکارا ہے، اُسے خبر نہ تھی کہ اس نے کس خوابیدہ طَیش کو جگادیا ہے، اسے خبر نہ تھی کہ اس نے کس دلدل میں قدم رکھ دیا ہے، اسے خبر نہ تھی کہ اس نے زمیں کے غضب اور آسماں کے قہر کو پکارا ہے، اسے خبر نہ تھی اس نے کس گرداب میں چھلانگ لگا دی ہے، اسے خبر نہ تھی کہ اس نے شیروں کی کچھار میں قدم رکھ دیا ہے اور اسے خبر نہ تھی کہ اس نے کن آشفتہ سروں کو چھیڑدیا ہے۔

جنابِ صدر!

پھر ہواؤں نے دیکھا ، فضاؤں نے دیکھا ، چرخِ کُہن سالہ نے دیکھا، غیروں نے دیکھا، یاروں نے دیکھا۔۔۔۔۔جنابِ صر ! ردائیں پرچم بن گئیں، پھول انگارے بن گئے، آنکھیں لہُو ہوگئیں، بھنور کنارے بن گئے، ہوا پھندہ بن گئی اور بی آر بی سمندر بن گئی، میرے جیالے لڑے اور ایسا لڑے کہ غنیم کے لیے موت بن گئے، میرے جوان اللہ اکبرکے نعرے لگاتے دشمن سے جا ٹکرائے، میرے دیس کے بیٹے کفن لپیٹے ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے، میرے محافظ بھوکے پیاسے لڑتے رہے، لڑتے رہے، کٹتے رہے، گرتے رہے، اٹھتے رہے، ٹکراتے رہے۔ دنیا حیران تھی، راتوں رات لاہور کی فتح کے خواب دیکھنے والے UNO کے سامنے گڑغرارہے تھے، رسمِ شبیری تازہ ہورہی تھی، دشمن بھاگ رہا تھا، سازوساماں چھوڑ کر بھاگ رہا تھا، حوصلہ چھوڑ کر بھاگ رہا تھا، آبرو خاک میں ملوا کر بھاگ رہا تھا، شیر للکار رہے تھے، رن کانپ رہا تھا، بگولے چکرارہے تھے، طوفان ٹکرارہے تھے، میرا غنیم جائے اماں ڈھونڈ رہا تھا، منزل کا نشاں ڈھونڈ رہا تھا، کوئے بقاء ڈھونڈ رہا تھا اور دنیا انگشت بدنداں دیکھ رہی تھی۔

جنابِ صدر!

جب سازِ سلاسل بجتے تھے ہم اپنے لہو سے سجتے تھے

وہ رسم ابھی تک باقی ہے، یہ رسم ابھی تک جاری ہے

زخموں سے بدن گلزار سہی پر ان کے شکستہ تیر گنو

خود ترکش والے کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے

جنابِ صدر!

مری آشفتہ سری میرا سرمایہ ہے،میرے جوانوں کا جنوں فصیلِ جاں ہے، میرے دیس کا بچہ بچہ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہوگیا، جب دریا جھوم کے اُٹھے تو تنکوں سے ٹالے نہ جاسکے، جب ہم چلے تو جاں سے گزر گئے، جب ہم رکے تو کوہِ گراں بن گئے۔

جنابِ صدر!

میں ان اشعار پر اپنی تقریر ختم کروں گا:

جب پرچم جاں لے کر نکلے، ہم خاک نشیں مقتل مقتل

اس وقت سے لے کر آج تلک جلاد پہ ہیبت طاری ہے

کچھ اہلِ ستم، کچھ اہل چشم مے خانہ گرانے آئے تھے

دہلیز چوم کے چھوڑ گئے، دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے

ہم سہل انگار سہی لیکن کیوں اہلِ ہوَس یہ بھول گئے

یہ خاکِ وطن ہے جاں اپنی اور جاں تو سب کو پیاری ہے

(حوالہ: کتاب، "شعلہ وشبنم مقابلہ جاتی تقاریر) از احمد سجاد بابر ، ص 92،93،94)

متعلقہ عنوانات