نوجوانوں میں مذہب بیزاری، کہیں قصور ہمارا تو نہیں !

آخر کیا وجہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے اس ابلاغی دور میں سانس لینے والی یہ انتہائی باخبر نسل ، مذہب کے سادہ سے اصول اور تعلیمات سمجھنے سے قاصر ہے؟ مذہب بیزاری  کی اس شدید لہر کا ذمہ دار آخر کون ہے ؟کیوں اسلام کے واضح اور پُرحکمت احکامات جنہوں نے عرب کے انتہائی انحطاط پذیر معاشرے سے تعلق رکھنے والے صحرا نشینوں کی کایا پلٹ دی تھی ۔۔۔ان کو یہ بہترین آئی کیو لیول کی حامل نسل صحیح طور پر سمجھنے میں ناکام نظر آتی ہے ؟

ان سب سوالات کے کا جواب بھی انہیں اسلامی تعلیمات میں مضمر ہے۔ اگر اسلامی احکامات سے نوجوانوں کو روشناس کروانے کے فریضے سے وابستہ علمائے کرام قرآن کے اس واضح ارشاد کو مدنظر رکھیں تو شاید اس جنریشن اور مسجد و محراب کے درمیان فاصلوں کو کم کیا جا سکے۔ فرمان رب العزت ہے :

"(اے رسول معظم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو. بے شک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتے  ہے۔" (سورۃ النحل:125)

کیا خوبصورت تربیت کی جا رہی ہے تبلیغ دین کے لئے سرکارِ دو عالم ﷺ کی ۔اللہ تعالی اللہ خلاق عظیم ہے۔ وہ اپنی تخلیق کے بارے میں سب سے بہتر جانتا ہے۔ انسان کے دل میں کوئی بات کیسے اتاری جا سکتی ہے اس پروردگار سے بہتر بھلا کون بتا سکتا ہے!

 مذکورہ آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے دعوت دین کے تین بنیادی اصول بیان فرمائے ہیں۔ پہلا اصول حکمت و دانائی کو اپنے پیغام کا حصہ بنانا ہے ۔۔۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکمت کیا ہے؟

  آئیے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں!

 ہر دور کی ایک عقل عامہ( Common sense) ہوتی ہے۔اگر ہمیں اپنا پیغام مؤثر طریقے سے اس دور کے افراد خصوصا نوجوانوں تک پہنچانا مقصود ہو تو ہمیں اپنا پیغام اس عقل عامہ کے مطابق ترتیب دینا ہوگا ۔ ہمارے دور کے علمائے کرام کے طریقہ تبلیغ میں حکمت کا فقدان نظر آتا ہے۔ یہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے ۔آج کا نوجوان سائنس کے دماغ سے سوچتا ہے اور منطق کی بنیادوں پر چیزوں کو پرکھتا ہے۔ حالیہ دور میں تبلیغ دین کے حوالے سے علمی، تحقیقی، سائنسی اور تجرباتی پہلوؤں کو نظر انداز کرنے کا رویہ بجائے نوجوانوں کو دین کی طرف راغب کرنے کے۔۔۔ مذہب زاری کا سبب بنا ہے۔

دوسرا زریں اصول عمدہ نصیحت کرنے کا ہے۔۔۔ جو اس  آیت کریمہ میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ نصیحت کیا ہے۔۔۔ ایک بلاوہ ہے۔۔۔ دعوت ہے۔۔۔مائل اور قائل کرنے کی مساعی جمیلہ ہے ۔

حکمت نصیحت کا ایک جزو لازم ہے۔ یوں جان لی جیے کہ گمراہی کی گھپ اندھیری رات میں ایک روشن چراغ کا نام نصیحت ہے اور حکمت اس طرح کا تیل ہے۔ اقبال نے فرمایا تھا کہ مرد مومن گفتار و کردار میں اللہ کی برہان ہوتا ہے ۔

آج اسلام جیسا خوبصورت پیغام اگر لوگوں کی سماعتوں کے لئے مانوس نہیں ہے تو اس کی وجہ حکمت سے خالی نصیحت ہے۔ آج تنقید کی جگہ تنقیص نے لے لی ہے۔ کسی کو اپنی راہ پر لانے کے لیے کبھی کبھی دو چار قدم اس کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ ہمارے علماء ۔۔۔معذرت کے ساتھ!  اس عمل کو اپنی تحقیرسمجھتے ہیں۔۔۔ اللہ ماشاء اللہ !

تیسرا اصول جدالِ احسن کا ہے ۔اختلاف رائے عملی و علمی و فکری حلقوں کا حسن ہوتا ہے ۔ اپنی رائے کا احسن طریقے سے دفاع کرنا اور دوسرے کی رائے کا عزت کے ساتھ رد کرنا صحت مندانہ مکالمہ کو جنم دیتا ہے ۔ بات کرنے سے ہی بات بنتی ہے۔ رب تعالی نے بولنے کے لیے ایک زبان اور سننے کے لیے دوکان دیے ہیں ۔جس کا مقصد ہے کہ کم بولو زیادہ سنو لیکن ہمارے ہاں اس کے بالکل بر عکس ہے۔ خاص طور پر دینی محافل میں تو بقول غالب یہ صورتحال ہوتی ہے کہ:

 بات پر واں زبان کٹتی ہے

وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

حالانکہ علماء کا طرز عمل اس کے برعکس ہونا چاہیے جیسا کہ غالب اپنی اسی غزل میں کہتے ہیں:

 نہ سنو گر برا کہے کوئی

 نہ کہو گر برا کرے کوئی

روک لو گر غلط چلے کوئی

 بخش دو گر خطا کرے کوئی

 ہمارے بڑوں کو ان کے بڑوں نے جو نصیحتیں کی تھی اپنے چھوٹوں کے ساتھ مکالمے میں وہ انہیں یکسر فراموش کر بیٹھے۔ اقبال نے مرد مومن کے لیے فرمایا تھا :

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

 معرکہ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

 اس نسل کے بڑوں نے حلقہ یاراں میں فولادی طرز عمل اختیار کیا۔۔ بحث مباحثے میں عدم برداشت، حکمت اور نصیحت کے منافی ہیں۔ میری رائے کے مطابق قرآن حکیم کے ان تین ابلاغی اصولوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے موجودہ نسل اور پچھلی نسل کے درمیان جو کمیونیکیشن گیپ پیدا ہوگیا ہے وہی اس جنریشن کے دین و مذہب سے دوری کی بنیادی وجہ ہے۔۔۔ یہ نسل آگہی رکھنے والی ۔۔۔ویل انفارمڈ نسل ہے۔ اگر حکمت، نصیحت اور احسن طریقے سے گفت و شنید کے ذریعے انہیں دین فطرت کی طرف مائل کیا جائے۔۔۔ قائل کیا جائے ۔۔۔ راغب کیا جائے، تو یہ دوری مٹ سکتی ہے۔۔۔ فاصلے سمٹ سکتے ہیں کیونکہ :

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے

 ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

متعلقہ عنوانات