واقعہ کربلا کا ذکر اردو غزل میں کس انداز سے کیا گیا ہے؟

اردو شاعری میں بے شمار افکار ، نظریات اور خیالات کا ورود فارسی سے ہوا ہے ۔ بہت سی اصطلاحات اور اصناف سخن ہیں جو اردو کو فارسی کی دین ہیں ۔ غزل بھی اردو میں فارسی سے آئی ہے ۔ شاعری کی اس صنف نے اُردو میں آنے کے بعد خود کو یوں اُردو میں رنگ کیا کہ اُردو کا اٹوٹ انگ بن گئی ۔ 


غزل نے جہاں اُردو شاعری کو ایک نیا اسلوب اور انداز بیاں تو دیا وہاں نئے نئے موضوعات اور افکار سے بھی نوازا ۔
یہ بات سمجھانے کے لیے کہ غزل کیا ہے ، اکثر یہ مثال پیش کی جاتی ہے کہ اگر کسی ہرن کے تعاقب میں شکاری لگا ہو اور وہ اپنی جان بچانے کے لیے اپنی تمام تر قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے دوڑ رہی ہو لیکن اس کی تمام تر کوششوں کے باوجود شکاری اس کے سر پر پہنچ جائے اور اس پر نشانہ باندھ لے۔۔۔ عین اس لمحے ہرن کے منہ سے نکلنے والی درد بھری چیخ کا نام 'غزل ' ہے ۔ کیسے ممکن ہے کہ شاعری کی وہ صنف جس کا خمیر ہی درد و الم سے اٹھا ہو انسانی تاریخ کے سب سے المناک واقعے سے متاثر نہ ہوئی ہو ۔ واقعہ کربلا نے رنگ ، نسل حتیٰ کے مذہب کی حدود سے بھی بالاتر ہو کر انسانیت کو متاثر کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ماہ محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی نہ صرف امت مسلمہ نواسہء رسول اور ان کے خانوادے سے ہونے والی بدسلوکی اور مظالم پر سراپہ احتجاج بنی حزن و ملال میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہے بلکہ غیر مسلم جو اس واقعے کی تفصیلات و حقائق سے آگہی رکھتے ہیں وہ بھی اس پر افسوس کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکے جیسا کہ ہمارے بر صغیر میں گرو نانک اور بھگت کبیر کے کئی اقوال اہل بیت اطہار اور واقعہ کربلا کے حوالے سے ملتے ہیں ۔جوش ملیح آبادی نے یونہی نہیں کہا تھا:

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حسین

اُردو غزل میں اساتذہ کے ہاں ہمیں کربلا کا ذکر حزن و ملال ، بے نوائی ، تشنگی اور انتہائے عشق کے استعارے کے طور پر نظر آتا ہے ۔  غالب ایک فارسی غزل میں حمد بیان کرتے ہوئے یوں کربلا کا حوالہ دیتے ہیں:

بزم ترا شمع و گل خستگی بوتراب
ساز ترا زیر و بم واقعہ کربلا
(مرزا غالب)
غالب کے ان اشعار میں ملاحظہ فرمائیے کہ کس خوبی سے وہ کربلا کا نام لیے بغیر سارا فسانہ ابتلاء بیان کرتے ہیں ۔ 

عشرت قتل گہ اہل تمنا مت پوچھ
عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا
(مرزا غالب)

اس شعر کی بےشمار تشریحات میں سے جب اس کی واقعہ کربلا کو ذہن میں رکھتے ہوئے تصریح و تشریح کی جاتی ہے تو اس شعر کی اپنی خوبصورتی دوچند ہو جاتی ہے ۔ ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیے:

کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یارب
اک آبلہ پا وادیٔ پرخار میں آوے

یہاں پیاس کی جس انتہا کا ذکر کیا جا رہا ہے اور جس قافلے کی آبلہ پائی اور بے سروسامانی کا بیان ہو رہا ہے وہ  واضح طور پر مظلومین کربلا ہیں ۔

میر تقی میر تو اپنی عشقیہ شاعری میں بھی کہیں کہیں کربلا کا حوالہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ مثلاً اس شعر پر ذرا غور فرمائیے:

وا اس سے سرِ حرف تو ہو گو کہ یہ سر جائے
ہم حلقِ بریدہ ہی سے تقریر کریں گے
(میر تقی میر)

اس شعر میں میر " سر جانے" اور " حلق بریدہ ہی سے تقریر"  کرنے کا ذکر کر کے شہید کربلا کے بے دردی سے سر کٹنے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ 
جیسے جیسے غزل لب و رخسار اور ہجر و وصال یار کے اذکار سے آزاد ہوتی گئی ویسے ویسے اس کے موضوعات اور استعارات و تشبیہات میں بھی وسعت آتی گئی جدید غزل میں اب ہمیں جا بجا کربلا اور شہادت حسین (رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ) کا حوالہ ملتا ہے حتیٰ کہ عشقیہ شاعری میں بھی کربلا کا حوالہ خیال اور بیان میں شدت  پیدا کر دیتا ہے ۔ دور حاضر کے نامور شاعر جون ایلیا کا یہ شعر اب زبان زدِ عام ہے۔
 یہ تو بس سر ہی مانگتا ہے میاں!
عشق پر کربلا کا سایہ ہے
(جون ایلیا)
کربلا کے ذکر نے دیکھیے عشق کی تباہ کاری کے بیان کو کیسی شدت عطا کر دی ہے اس شعر میں۔ شکیب جلالی کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:

ساحل تمام گرد ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی آکے جو پیاسا پلٹ گیا
 (شکیب جلالی)

فرات کے کنارے امام عالی مقام کی پیاس کی کیا خوب عکاسی ہے۔ کربلا کی پیاس کے ہی استعارے کا استعمال دور حاضر کے مقبول شاعر ظفر اقبال یوں کرتے ہیں:

سروں تک آ گیا آبِ فرات خوف دیکھو
جو پیاسوں کو ڈبو دے گی یہ ایسی کربلا ہے
(ظفر اقبال)
امام عالی مقام کی پیاس کو ہی محمد علوی اپنے اس شعر میں ایک منفرد انداز میں برتتے ہیں:

دل ہے پیاسا حسین کی مانند
یہ بدن کربلا کا میداں ہے
(محمد علوی)
اسی پیاس کے مضمون کے لیے وقعہ کربلا کے حوالے کو انیس اشفاق یوں برتتے ہیں:

وہ دریا پہ مجھ کو بلاتا رہا
مگر میں صف تشنگاں میں رہا 
(انیس اشفاق)
 
اُردو غزل کی دنیا احساس کی دنیا ہے، جذبات کی دنیا ہے اور کوئی بھی حساس اور گداز دل واقعہ کربلا سے متاثر ہونے سے خود کو نہیں روک سکتا ۔ اُردو غزل میں ذکر کربلا کے حامل اشعار کو اگر جمع کیا جائے تو ایک اچھی خاصی ضخیم کتاب وجود میں آ جائے ۔ یہاں اجمالاً چند مثالیں پیش کی گئی ہیں ۔ اُردو غزل جوں جوں ترقی کرے گی ذکر حسین و بیان کربلا کی ایسی مثالوں میں توں توں مزید اضافہ ہوتا جائے گا ۔

متعلقہ عنوانات