شہرِ لاہور پر اشعار: لاہور محبت کا شہر ہے

یہ جو لاہور سے محبت ہے

یہ کسی اور سے محبت ہے

لاہور شہر زندہ دل لوگوں کی سرزمین۔۔۔لاہور محبت کا استعارہ ۔۔۔۔اور عشق کرنے والوں کا مسکن۔۔۔

وہاں پر اب اکیلے کیا کرو گے

یہیں لاہور ہی میں آ بسو ، نا

 (ندیم شیخ)

 

 کئی شعراء کے ہاں ہمیں لاہور کا ذکر محبوب کی وساطت سے ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔شاعر محبوب کی یاد میں تڑپتے ہوئے لاہور میں گزرے شب و روز یاد کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

ادریس بابر بھی ایسی ہی وارداتِ عشق کو یوں بیان کرتے ہیں:

 

ایک دفعہ کا ذکر ہے دونوں اک لاہور میں یکجا تھے

ایک دفعہ کا ذکر ہے اس کو کبھی مکرنے مت دینا

(ادریس بابر)

 

پریا تابیتا کا یہ شعر بھی ایسے ہی خوبصورت جذبات کی لاجواب ترجمانی کرتا ہے:

 

جب سے جانا کہ وہ ہم شہر ہے میرا تب سے

شہر لاہور بھی جادو کا نگر لگتا ہے

(پریا تابیتا)

لاہور سے محبت:

ڈاکٹر فخر عباس نے لاہور سے محبت پر غزل کہی وہ زبانِ زدِ عام ہوگئی۔۔۔

یہ جو لاہور سے محبت ہے

یہ کسی اور سے محبت ہے

 

اور وہ اور تم نہیں شاید

مجھ کو جس اور سے محبت ہے

 

یہ ہوں میں اور یہ مری تصویر

دیکھ لے غور سے محبت ہے

 

بچپنا کمسنی جوانی آج

تیرے ہر دور سے محبت ہے

 

ایک تہذیب ہے مجھے مقصود

مجھ کو اک دور سے محبت ہے

 

اس کی ہر طرز مجھ کو بھاتی ہے

اس کے ہر طور سے محبت ہے

 (ڈاکٹر فخر عباس)

 

محبت کب کسی اور سے ہے

یہ سرپھری بھی لاہور سے ہے

(نامعلوم)

لاہور سے لازوال رشتہ:

لاہور پیچھے رہ گیا ہم باوفا مگر

اس شہرِ بے مثال سے آگے نہیں گئے

(شبنم شکیل)

 

اِسی شہر سے ہیں فروزاں نگاہیں یہی میرا سینہ ، یہی ہے مِرا دِل

کسی کی سرائے ، کسی کا ہے رستہ مگر ہے یہ لاہور میری تومنزل

 

جس کو بھی لاہور کے جلوے مل جائیں اُس کا چہر ہ کیوں نہ خوشی سے کھِل جائے

اُس کی پھر لاہور سے دُوری مشکل ہے جس کو بھی ’’ لاہور آغوشی ‘‘ مل جائے

(ممتاز راشد لاہوری)

 

جب اس کی زندگی میں کوئی اور آگیا

تب میں بھی گاؤں چھوڑ کے لاہور آ گیا

(رحمن فارس)

 

تکتے ہوئے ہر شے کو بڑے غور سے گزرے

ہم بعد ترے جب کبھی لاہور سے گزرے

(نامعلوم)

لاہور غمگین دلوں کا مسکن:

جہاں شاعر وصال یار کے قصوں کے حوالے سے لاہور کو یاد کر کے آہیں بھرتے نظر آتے ہیں وہاں محبوب کی جدائی اور فرقت کا ذکر بھی لاہور کے حوالے سے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اسی تناظر میں حسب ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیے:

 

آئے گا پھر سے آنکھ میں ساون شباب پر

لاہور سے سنا ہے کہ اکتا گئی ہیں وہ

(الطاف مشہدی)

 

کوفے کے قریب ہو گیا ہے

لاہور عجیب ہو گیا ہے

(سیف زلفی)

 

لاہور کہ اہل دل کی جاں تھا

کوفے کی مثال ہو گیا ہے

(شہرت بخاری)

 

سونے پڑے ہیں دل کے در و بام اے ظہیرؔ

لاہور جب سے چھوڑ کے جان غزل گیا

(ظہیر کاشمیری)

 

جس کو لاہور سے لگاؤ ہے

اس کے سینے میں کوئی گھاؤ ہے

(ممتاز راشد لاہوری)

 

تکتے ہوئے ہر شے کو بڑے غور سے گزرے

ہم بعد تیرے جب کبھی لاہور سے گزرے

(نامعلوم)

 

لہور لہور اے:

جب کو ایک بار لاہور آ جاتا ہے تو وہ خود چاہے لاہور سے چلا بھی جائے ، لاہور اس کے اندر سے کبھی نہیں جاتا۔ یونہی ناصر کاظمی نے نہیں کہا تھا۔

 

شہر لاہور تری رونقیں دائم آباد

تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو

(ناصر کاظمی)

شہرت بخاری لاہور کی انہی گلیوں کی دلکشی اور رنگینی کو ایک اور انداز میں سراہتے ہیں ۔

 

طور سینا ہو کہ لاہور کی گلیاں شہرتؔ

حسن ہر رنگ گریزاں ہے خبردار رہو

(شہرت بخاری)

لاہور کی رونقیں:

شاعر خواہ بلواسطہ لاہور سے محبت کا اظہار کرے یا بلا واسطہ ۔۔۔ یہ طے ہے کہ لاہور کی رونقیں دیکھ لینے کے بعد وہ اسے خراج عقیدت و محبت پیش کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ اس شہر کے شب و روز ، گلیاں بازار ، رونقیں ، محفلیں ۔۔۔ سب رواں دواں زندگی کا احساس اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں ۔ پچھلے دنوں راقم کو لاہور اپنے دوستوں کی ہمراہی کے بغیر لاہور جانے کا اتفاق ہوا تو تنہائی کا احساس کچھ یوں غزل ہوا:

بھیڑ ہر سُو ہے کوئی شور نہیں

تیرا لاہور اب لاہور نہیں!!!

تیرے میخوار در بدر ہیں اے جاں!

 دید کی مے کے اب وہ دور نہیں

سرِ تسلیم خم جو حکم تیرا

تیری مرضی پہ کوئی زور نہیں

دے دیا ہے جواب ہمت نے

اے غمِ یار بس! اب اور نہیں

مسئلے دوسرے بہت ہیں سعید

عاشقی اور، زیر غور نہیں

(سعید عباس سعید)

متعلقہ عنوانات