یومِ آزادی پر اشعار: اردو غزل میں پاکستان سے محبت کا کیا پیغام ملتا ہے؟

وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہے ۔ ہمارے اس دنیا میں وارد ہوتے ہی جو شخصیات ، مقامات اور اشیاء ہمیں نظر آتی ہیں عمر بھر ہم ان کے لیے مانوسیت اور محبت کے جذبات محسوس کرتے ہیں ۔ وہ ہوائیں، وہ درودیوار اور وہ گلی کوچے ہمارے لیے تاحیات محترم و معزز رہتے ہیں جنہوں نے  بچپن میں ماں باپ کی طرح ہمیں آغوش میں لے کر پروان چڑھایا ہوتا ہے ۔ 

اُردو غزل چونکہ جذبات کی شاعری ہے اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ حبِ وطن جیسے فطری جذبے سے اُردو غزل خالی ہو ۔ اُردو غزل میں کبھی دل کو دلی سے تشبیہ دے کر وطن سے محبت کا اظہار کیا گیا تو کبھی لاہور شہر کا ذکر حبِ٘ وطن کی علامت کے طور پر ابھرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ 
ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں کہ:۔
’’جنہوں نے زندگی کسی شعبے میں سوچنے اور تخلیق کرنے کا کام کیا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ وہ شخص جسے اپنے ملک ، اپنی زمین سے محبت نہ ہو ، وہ کوئی تخلیقی یا فکری کام کر ہی نہیں سکتا۔ ادیب کے مزاج میں تو ہمیشہ اُس کا ملک، اُس کے لوگ اور ان کی اتھاہ محبت کا جذبہ غیر شعوری طور پر موجود رہتا ہے۔‘‘
اگر پاکستانی غزل میں حب الوطنی کی بات کی جائے تو ناصر کاظمی کا نام ہمیں اس میں سرفہرست نظر آتا ہے جنہوں نے پاکستان بنتے کے دوران ہونے والے فسادات کے درد اور اکہتر میں اس کے دولخت ہونے کے دکھ کو غزل کا حصہ بنایا ۔ ڈاکٹر عنصر عباس اس حوالے سے لکھتے ہیں:
’’تقسیم اور فسادات کے موضوع پر اردو شاعری میں اس کا اظہار زیادہ تر غزل میں ہوا ہے- ناصر کاظمی نے اردو غزل میں ماضی کی یاد کو مستقل موضوع بنایا‘‘
(انصر عباس ، پاکستانی اردو شاعری میں ملی نغمہ کی روایت ، مقالہ برائے پی ایچ ڈی  ) 
ناصر کاظمی کی غزل کے ان اشعار میں سکوت ڈھاکہ کا دکھ محسوس کیا جا سکتا ہے ۔
وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے
وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں
جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے
(ناصر کاظمی)

اور یہ شعر دیکھیے کہ۔۔۔

پرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں 
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے
(ناصر کاظمی)

ناصر کاظمی کی شاعری میں درد کی دھیمی آنچ پر ابلتا ہوا یادوں کا دکھ انہیں میر تقی میر کی شاعری کے قریب تر لے جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں 'میر جدید ' بھی کہا جاتا ہے ۔
ناصر کاظمی کے بعد ہمیں فیض کی غزلیات میں بھی حب وطن کی جھلکیاں ملتی ہیں ۔ فیض بھی پاکستان کے دولخت ہونے کے درد کو یوں بیان کرتے ہیں:

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کو بہار ! !
خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختمِ دردِ عشق کے ! ! ! !
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
(فیض احمد فیض)

افتخار عارف کے ہاں بھی وطن عزیز سے محبت کی کئی مثالیں نظر آتی جہاں انہوں نے حب الوطنی کو غزل کا حصہ بنایا ۔ یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے 
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے 
(افتخار عارف)
سلامتی ہی سلامتی کی دُعائیں خلقِ خدا کی خاطر
ہماری مٹی پہ حرف آیا تو عہدِ فتحِ مبیں لکھیں گے
(افتخار عارف)

جدید پاکستانی غزل میں حب الوطنی کے نمونے  نسبتاً زیادہ ملتے ہیں ۔ یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:

کل پردیس میں یاد آئے گی دھیان میں رکھ 
اپنے شہر کی مٹی بھی سامان میں رکھ 
سارے جسم کو لے کر گھوم زمانے میں 
بس اک دل کی دھڑکن پاکستان میں رکھ 
(اظہر ادیب)

بھری دنیا کا طاہرؔ چپہ چپہ چھان مارا ہے 
نہیں پایا کہیں بھی شہر پاکستان کا منظر 
(طاہر عدیم)
کیپٹن عطاء محمد خان کے شعری مجموعے "تکون" میں ہمیں جابجا وطن سے محبت کے نمونے ملتے ہیں۔  حب الوطنی ان کی نظم سے نکل کر غزل میں داخل ہوتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ وہ پاکستان کو دلی کی طرح دل سے تشبیہ دیتے ہیں:

 سدا رونق رہے ان بستیوں میں
رہے آباد پاکستان دل کا
(کیپٹن عطاء محمد خان)

پروین شاکر کا  اردو غزل میں کسی حوالے یا تعارف کی محتاج نہیں ۔ ان کا یہ شعر ملاحظہ ہو ۔

بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
(پروین شاکر)

چند دیگر شعراء کے اشعار ملاحظہ فرمائیے:

ہزار جاں سے وطن پر نثار ہو جاؤں
ظفر یہ ایک تمنائے دل ہے جاں کی طرح
(یوسف ظفر)
یقیں کی سرزمیں ظاہر ہوئی اپنے لہو سے
یہ ارضِ بے وطن اپنا ترانہ ڈھونڈتی ہے
(ڈاکٹر اجمل نیازی)
توڑ ڈالے ہیں میں نے سب رشتے
جب سے رشتہ وطن سے جوڑا ہے
(تنویر نقوی)
انتخابِ آرزو ہیں فتح و نصرت کے چراغ
ہیں فروزاں خونِ دل سے ملک و ملت کے چراغ
(ساغر صدیقی)

وہیں سے پھوٹ رہا ہے طلوعِ صبح کا نور
جہاں شہید ہوا اک ہجوم تاروں کا
(احمد ندیم قاسمی)

اُردو غزل جو انسان کے تمام سچے جذبوں کی امین ہے ۔۔۔ جذبہ حب الوطنی اس کا اٹوٹ حصہ ہے جو ایک سرسری سا مطالعہ رکھنے والا اردو کا قاری بھی محسوس کر سکتا ہے۔

متعلقہ عنوانات