شہادت حسینؓ اور اہل بیت پر ہونے والے مظالم کو یاد رکھنا کیوں ضروری ہے؟

ہم اس سوال سے تھوڑی دیر کے لیے قطع نظر کیے لیتے ہیں کہ اصول اسلام کے لحاظ سے حضرت حسینؓ کا یہ خروج جائز تھا یا نہیں۔ اگرچہ ان کی زندگی میں اور ان کے بعد صحابہ و تابعین میں سے کسی ایک شخص کا بھی یہ قول ہمیں نہیں ملتا کہ ان کا خروج ناجائز تھا اور وہ ایک فعل حرام کا ارتکاب کرنے جارہے تھے۔ صحابہؓ میں سے جس نے بھی ان کو نکلنے سے روکا تھا وہ اس بنا پر تھا کہ تدبیر کے لحاظ سے یہ اقدام نامناسب ہے تاہم اس معاملہ میں یزید کی حکومت کا نقطہ نظر ہی صحیح مان لیا جائے تب بھی تو یہ امر واقعہ ہے کہ وہ کوئی فوج لے کر نہیں جارہے تھے، بلکہ ان کے ساتھ ان کے بال بچے تھے، اور صرف 32 سوار اور 40 پیادے۔ اسے کوئی شخص  بھی فوجی چڑھائی نہیں کہہ سکتا۔ ان کے مقابلہ میں عمر بن سعد بن ابی وقاص کے تحت جو فوج کوفہ سے بھیجی گئی تھی اس کی تعداد چار ہزار تھی۔ کوئی ضرورت نہ تھی کہ اتنی بڑی فوج اس چھوٹی سی جمعیت سے جنگ ہی کرتی اور اسے قتل کرڈالتی۔ وہ اسے محصورکرکے بآسانی گرفتار کرسکتی تھی۔

پھر حضرت حسینؓ نے آخر وقت میں جو کچھ کہا تھا ، وہ یہ تھا  کہ یا تو مجھے واپس جانے دو، یا کسی سرحد کی طرف نکل جانے دو یا مجھ کو یزید کے پاس لے چلو، لیکن ان میں سےکوئی بات بھی نہ مانی گئی اور اصرار کیا گیا کہ آپ کو عبیداللہ بن زیاد (کوفہ کے گورنر) ہی کا پاس چلنا ہوگا۔ حضرت حسینؓ اپنےآپ کو ابن زیاد کے حوالے کرنے  کے لیے تیار نہ تھے، کیونکہ مسلم بن عقیل کے ساتھ جو کچھ وہ کرچکا تھا، وہ انہیں معلوم تھا۔

آخرکار ان سے جنگ کی گئی۔ جب ان کے سارے ساتھی شہید ہو گئے اور وہ میدان جنگ میں تنہا رہ گئے تھے، اس وقت  بھی ان پر حملہ کرنا ہی ضروری سمجھا گیا ، اور جب وہ زخمی ہو کر گر پڑے تھے ، اس وقت ان کو ذبح کیا گیا۔ پھر ان کے جسم پر جو کچھ تھا، وہ لوٹا گیا، حتیٰ کے ان کی لاش پر سے کپڑے تک اتار لیے گئے اور اس پر گھوڑے دوڑا کر اسے روندا گیا۔ اس کے بعد ان کی قیام گاہ کو لوٹا گیا اور خواتین کے جسم پر سے چادریں تک اتار لی گئیں۔ اس کے بعد ان سمیت تمام شہدائے کربلا کے سر کاٹ کر کوفہ لے جائے گئے اور ابن زیاد نے برسرعام ان کی نمائش کی، پھر یہ سارے سر یزید کے پاس دمشق بھیجے گئے، اور اس نے بھرے دربار میں ان کی نمائش کی۔

فرض کیجیے کہ حضرت حسینؓ یزید کے نقطہ نظر کے مطابق برسربغاوت ہی تھے، تب بھی کیا اسلام میں حکومت کے خلاف خروج کرنے والوں کے لیے کوئی قانون نہ تھا، فقہ کی تمام مبسوط کتابوں میں یہ قانون لکھا ہوا موجود ہے۔ مثال کے طور پر صرف ہدایہ اور اس کی شرح فتح القدیر ، باب البغاۃ میں اس کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اس قانون کے لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ ساری کارروائی جو میدان کربلا سے لے کر کوفے او ردمشق کے درباروں تک کی گئی، اس کا ایک ایک جزو قطعا حرام اور سخت ظلم تھا۔

(خلافت و ملوکیت، ص 179-181، از سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)

متعلقہ عنوانات