سیاسی ڈکشنری: سیاست کی وادی میں لفظوں کی سیر

لسانیات کی بحث میں کہا جاتا ہے آواز سے حرف اور  حرف سے لفظ بنتا ہے۔ لیکن یہ سفر اتنا آسان نہیں ہوتا۔۔۔آگ کا دریا ہے اور ڈوب کرجانےکے مترادف ہے۔ہر لفظ  طویل سفر کرتے موجودہ صورت تک پہنچتا ہے۔لیکن یہ سفر یہاں بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ آج ہمارا مقصد کوئی دقیق لسانی بحث کرنا نہیں ہے۔آج چند ایسے الفاظ کا تذکرہ کریں گے جو سیاسی وسماجی مباحث  میں    بہت اہم ہیں  لیکن احتیاط نہ برتی جائے  تو "سیاست" کی نذر ہوسکتے ہیں۔

 (ڈس کلیمر: اس تحریر یا بحث کا قطعی طور سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر کسی اس تحریر کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی تو نتائج کا خود ذمہ دار ہوگا۔)

چلیے آغاز ہی سیاست سے کرتے ہیں یعنی لفظ "سیاست" سے

سیاست

ویسے تو لفظ "سیاست" بھی در اصل غیر سیاسی ہے۔   یعنی الفاظ از خود کوئی ایجنڈا یا ارادہ  نہیں رکھتے۔ ان کے استعمال   کا موقع و محل اور مقصد انھیں کوئی مخصوص مفہوم عطا کرتے ہیں۔

آئیے    لفظ  سیاست کا "لُغت" کی روشنی میں مفہوم جناب احمد حاطب صدیقی کی زبانی ملاحظہ کرتے ہیں:  

""زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ لفظ ’سیاست‘ کے مفاہیم بھی بدلتے چلے گئے۔’سیاست‘ عربی مصدر ’’سَاسَ یَسُوسُ‘‘ سے مشتق ہے۔ اس کا لفظی مطلب ہے: دیکھ بھال رکھنا اور سَدھانا۔تربیت دینا، سکھانا، راہ پر لانا، مانوس کرنا، اپنے آپ سے کسی جانور کو ہِلا لینا۔ اس فن کے ماہر کو ’سائس‘ یا ’سائیس‘ کہا گیا۔ اب بچارے سائیس کا کام صرف گھوڑے سَدھانا رہ گیا ہے۔ ’ہارس ٹریڈنگ‘ یعنی گھوڑوں کی تجارت بھی شاید سیاست کاحصہ اسی وجہ سے بنی ہو۔مگر اس کام کو حقیر نہ جانیے۔ اچھا سائیس وہی ہوتا ہے جو جانوروں کی عادات، اُن کی فطرت، اُن کی جبلت اور اُن کی نفسیات کا اچھی طرح علم رکھتا ہو۔ اُن پر حکم چلا سکتا ہو۔ یہ جانتا ہو کہ کس وقت کس جانور سے کس طرح پیش آنا ہے۔ بِدکا ہوا جانور کیسے قابو میں آئے گا اور سست جانور کس ترکیب سے تیزگام ہو جائے گا۔

ایسی ہی صفات کی موجودگی قوموں کی پیشوائی کرنے والوں میں بھی ضروری سمجھی گئی۔ عوام کی تربیت اور ان کی راہ نمائی کرنا، ان کی دیکھ بھال رکھنا، ان کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ان سے برتاؤ کرنا اور ان کی حفاظت و نگہبانی کرنا بھی ایک سائیسی عمل یعنی ’سیاست‘ کہلایا۔ گویا سیاست کرنے والے کو دانا، زیرک، معاملہ فہم، مُدَبِّر (یعنی اچھی تدبیر کرنے والا) اور ماہر نفسیات ہونا چاہیے۔ تب ہی وہ اپنی قوم کی اچھی رہنمائی کرسکتا ہے۔""

سیاست کی اتنی خوب صورت وضاحت سے متاثر ہوکر ہم نے بھی "سیاست دان" کہلوانے کا اعلان کرنے کے ارادے سے کل سیاست کا یہ مفہوم زوجہ محترمہ کے سامنے گوش گزار کیا تو فرمانے لگیں کہ آپ بھی سیاسی بیانات دینے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اس لَغوی مفہوم سے مجھے متاثر کرنے کی کوشش مت کی جیے۔(اہلیہ محترمہ کی اصلاح کی ناکام کوشش فرمائی کہ یہ لَغوی نہیں لُغوی درست تلفظ ہے۔۔۔جوابی حملہ فرماتے ہوئے کہتی ہیں کہ آپ سے لَغو حرکات و گفتگو کے سوا کسی خیر کی توقع نہیں ہوتی  ۔)

مداخلت اور سازش   کی باریکیاں

ہم بات کررہے تھے سیاست کی،آج کل پاکستان کی سیاست میں دو الفاظ مداخلت اور سازش پر کافی بحث،جملے بازی اور لطائف "گھڑے" جارہے ہیں۔البتہ یہاں ہم ان دولفظوں کی لُغت کے اعتبار سے باریکیوں کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ ماہر تعلیم اور پاکستانی تنظیم اساتذہ برائے تدریس اردو (پتا بتا) کے بانی جناب طاہر جاوید  سے جب ان لفظوں بارے استفسار کیا گیا تو فرماتے ہیں:

مداخلت:اردو میں مداخلت   کا   لفظ   عام طور پر نیوٹرل رہتا ہے۔ مداخلت  جائز   بھی ہو سکتی اور بے جا بھی۔  جب بے جا ہو تو اسے  " دخل اندازی"  کہا جاتا   ہے    ۔   مگرسیاسی اصطلاح کے طور پر یہ لفظ ایک واضح منفی مفہوم رکھتا  ہے:

1۔کسی ایک ملک کی طرف سے دوسرے ملک کی سیاست میں  مداخلت  سازش کے تحت بھی ہو سکتی ہے۔  کسی سازش کا نقطہء آغاز بھی ہو سکتی ہے اور سازش کا " فائنل راونڈ" بھی ہو سکتی ہے۔

2۔مداخلت ایک طویل المیعاد حکمت عملی کے تحت بھی ہو سکتی ہے۔مداخلت   کے لیے   سازش    کرنا ضروری نہیں۔  کوئی بھی   طاقتور   قوم   حسب ضرورت     کسی کمزور قوم   پر علی الاعلان  مداخلت  کر سکتی ہے۔

سازش: سازش کے کئی رنگ اور کئی روپ ہو سکتے ہیں۔ مثلا"

  1۔سازش  دور سے بیٹھے ہوئے مقامی مہروں کی مدد سے بھی کی جا سکتی ہے   اور   اس کے  ساتھ  بین الاقوامی ادارے   (بشمول اقوام متحدہ،  آئی ایم ایف،   وغیرہ)     بھی استعمال ہو سکتے ہیں ۔  

2۔ سازش کا بڑا اور خاص طور سے ابتدائی حصہ حتی الامکان خفیہ رکھا جاتا ہے۔  گویا      سازشی  سرگرمیوں  کا   خفیہ   رکھا  جانا   سازش     کہلانے کے  لیے     لازمی   ہے۔  

3۔ بین الاقوامی سازش لازماً مداخلت کے ذریعے ہی انجام دی جا سکتی ہے۔ بین الاقوامی مداخلت کے اگر سیاسی عزائم ہوں اور اہم ترین سیاسی تبدیلیوں پر منتج ہوں  تو اسے سازش ہی کہا جائے گا۔

یاد رہے کہ لفظ سازش  کے مفہوم میں معاملات کا " خفیہ" رکھنا( secrecy) لازمی عنصر ہے۔جبکہ مداخلت کھلم کھلا بھی ہو سکتی اور سازش کے تحت بھی۔

جناب طاہر جاوید نےکس خوب صورتی سے پاکستانی عوام کی ایک اہم الجھن حل کردی۔اب کوئی جاکر صحافی بھائیوں کو بھی اس کا مفہوم سمجھا دے کہ  سازش میں مداخلت اور مداخلت میں سازش کے امکانات "روشن" ہیں۔

سیاستِ لفظی کی بحث میں ایک اور لفظ بھی زبانِ زدِ عام ہے، وہ ہے مولوی۔۔۔البتہ یہ لفظ  "نیم" سیاسی ہے۔لوگ اسے اپنی سہولت کے مطابق ہر جگہ استعمال کرتے رہتے ہیں۔چند برس قبل ایک سیاسی راہنما نے ایک "شریف" کو بھی بھرے جلسے میں "مولوی" کہہ دیا تھا۔ تفنن برطرف ذیل میں اس لفظ کا لُغت کے اعتبار سے مفہوم جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

مولوی: یہ لفظ بھی اپنے اندر خوب صورت معنی لیے ہوئے ہے۔ یاد رہے کہ مُولوی  (م پر پیش)  درست نہیں۔ کیا بولے مولوی درست نہیں۔۔۔کہیں فتویٰ نہ آجائے کہیں سے۔۔۔ارے نہیں جی!  میں کہہ رہا ہوں کہ تلفظ درست نہیں ۔۔۔ مولوی کے م پر پیش نہیں زبر ہے۔ جناب احمد حاطب صدیقی مولوی کے بارے میں فرماتے ہیں:

"جو لوگ ہمیں دین کی تعلیم دیتے اور سیدھا رستہ دکھاتے ہیں، اُنھیں ہم محبت سے ’مولانا‘ کہتے ہیں۔ اب تو خیر تلفظ خاصا بدل گیا ہے، مگر جس شخص کی قربت ’اللہ مولیٰ‘ سے ہوتی اور اُس میں زہد و تقویٰ پایا جاتا اُسے ’مَولَوی‘ (میم اور لام دونوںپر زبرکے ساتھ) کہا جاتا تھا۔ یعنی مولیٰ سے نسبت رکھنے والا۔ پَر اب ہم کسی کے کردار کی طرف نظر کیے بغیر صرف شکل دیکھ کر مولوی کہہ دیتے ہیں۔ شکلاً مولوی نظرآنے والے خاصے خطرناک بھی ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا اکبر ؔ الٰہ آبادی کی اس دعا پر ہمیشہ آمین کہتے رہیے:

خدا محفوظ رکھے ہر بلا سے

خصوصاً مولوی بدرالدجیٰ سے"

ہائے رے ہماری سیاست!۔۔۔پاکستانی سیاست پر تین حرف۔۔۔ایک سیاسی جماعت نے کیا ظلم کیا مولانا جیسے دلکش لفظ کے ساتھ ایک رکازی ایندھن کا نام جوڑدیا۔ الامان و الحفیظ۔صاحبو! اختلاف رکھیے، تنقید بھی کیجیے لیکن عزت و احترام کا دامن سے کبھی ہاتھ نہ چھوٹے۔

 

 

متعلقہ عنوانات