حمزہ شہبازاورپرویز الٰہی۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے انتخاب میں کون ہار کر جیتا اور کون جیت کر ہارا؟اصل کہانی چل کیا رہی ہے؟

ہماری قومی و صوبائی سیاست آج کل جس انداز سے چل رہی ہے وہ کسی بھی صورت بین الاقوامی دنیا میں ہمارے لیے قابل فخر نہیں کہی جاسکتی۔ہر روز نئی کہانیاں ہیں، نئے ڈرامے ہیں اور نت نئی واردات رونما ہورہی ہے۔ ایسیہی ایک کہانی یا ڈرامے کی ایک دلچسپ وعجیب قسط کل پنجاب میں دیکھنے کو ملی ہے۔

 کہانی شروع ہوتی ہے آٹھ مارچ 2022 سے جب مرکز میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آتی ہے۔ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر جیتنے والے کچھ ممبران قومی اسمبلی عمران خان کے ساتھ سے ادھر ادھر ہوتے نظر آتے ہیں۔ مارچ میں ہی صدر علوی سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 63 سے متعلق وضاحت مانگ لیتے ہیں۔ مارچ کے آخری ہفتے میں پنجاب میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد آ جاتی ہے لیکن بزدار اٹھائیس مارچ کو وزیر اعظم عمران خان کے نام استعفی دے جاتے ہیں۔ اس استعفی کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست بھی آتی ہے جسے عدالت فارغ کر دیتی ہے۔ عمران خان اسی وقت وزارت اعلیٰ کے لیے اپنے حلیف چوہدری پرویز الٰہی کو نامزد کر دیتے ہیں۔ سولہ اپریل کو وزارت اعلیٰ کا گرما گرم انتخاب ہوتا ہے، جس میں حمزہ شہباز 197 ووٹ لے کر وزیراعلیٰ منتخب ہو جاتے ہیں ۔ ان کے انتخاب میں پچیس ووٹ تحریک انصاف کے باغی اراکین کے ہوتے ہیں۔ مئی کے وسط میں سپریم کورٹ کے پانچ منصفین کا تین دو سے فیصلہ آتا ہے، جس میں وہ آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے کی وضاحت کر دیتے ہیں۔ اس وضاحت میں وہ بتاتے ہیں کہ وہ اراکین جو اپنی پارٹی لائن کے برخلاف اسمبلی میں ووٹ دیں گے، ان کا ووٹ نہیں گنا جائے گا۔ اس فیصلے کے مطابق یہ پارٹی سربراہ کا استحقاق ہوگا کہ اراکین کی رکنیت منسوخ کروانی ہے یا نہیں۔ ۔ عدالت عالیہ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف الیکشن کمیشن آف پاکستان میں گئی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان بیس مئی کو تحریک انصاف کے پچیس اراکین کی تنسیخ رکنیت کر دیتا ہے۔ ان میں بیس عام اراکین ، تین خواتین سیٹ پر اور دو اقلیتی نشستوں پر اراکین ہوتے ہیں۔ اسی دوران تحریک انصاف کی جانب سے پانچ مختلف درخواستیں لاہور ہائی کورٹ میں جمع کروائی جاتی ہیں جن میں حمزہ شہباز کے انتخاب کو چیلنج کیا جاتا ہے۔

 تیس جون 2022 کو تحریک انصاف کی درخواستوں پر لاہور ہائی کورٹ کا ایک بڑا فیصلہ آتا ہے۔ فیصلے میں یکم جولائی کو چار بجے پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلا کر وزیر اعلیٰ کے لیے دوبارہ ووٹوں کی گنتی کا کہا جاتا ہے۔ یہ سولہ اپریل کے اس انتخاب پر فیصلہ ہوتا ہے جس کے تحت حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ لیکن تحریک انصاف اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیتی ہے۔ سپریم کورٹ اس انتخاب کو بائیس جولائی کو کروانے کا کہتی ہے، جب سترہ جولائی کو بیس اراکین منتخب ہو چکے ہوں اور پانچ خصوصی نشستوں کے اراکین بھی اسمبلی میں آ چکے ہوں۔ دونوں پارٹیاں اس فیصلے سے خوش ہوتی ہیں اور سترہ جولائی کے انتخاب کے لیے زور و شور سے مہم شروع ہو جاتی ہے۔ سترہ جولائی کو پندرہ نشستیں تحریک انصاف جیتتی ہے اور پانچ نون لیگ کے حصے میں آتی ہیں۔ یوں پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف ق لیگ کی حمایت سے اپنی اکثریت جمانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ اب بائیس مئی کو انتخاب ہوتا ہے جس میں 179 ووٹ حمزہ شہباز کے حق میں نکلتے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے پاس ق لیگ کے اراکین کے ساتھ مل کر اکثریت ہوتی ہے۔ لیکن تمام ووٹنگ سے پہلے ڈرامے میں اہم موڑ آتا ہے۔ ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین قائم مقام سپیکر دوست محمد مزاری کو خط لکھتے ہیں کہ میری پارٹی کے اراکین تحریک انصاف کے امید وار کو ووٹ نہیں کریں گے۔ دوست محمد مزاری انتخاب کے بعد ق لیگ کے اراکین جو چوہدری پرویز الٰہی کو ووٹ کرتے ہیں، دوست محمد مزاری سپریم کے مئی والے فیصلے کی روشنی میں ووٹ نہیں گنتے۔ اور سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جن کے جواب کے لیے کہانی ابھی جاری ہے۔

 

متعلقہ عنوانات