علامہ اقبالؒ کا تعارف: علامہ اقبالؒ کی زندگی ایک جھلک میں (ٹائم لائن)

شاعرِ مشرق، مصورِ پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کے یوم پیدائش (9 نومبر) پر ان کے حیاتِ سفر (ٹائم لائن) کی ایک جھلک پیش خدمت ہے۔

نوٹ: یہ تحریر "نظریہ پاکستان ٹرسٹ" کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک انگریزی تحریر سے ماخوذ ہیں۔

علامہ محمد اقبالؒ کا سفرِ حیات/ ٹائم لائن (9 نومبر 1877ء تا 21 اپریل 1938ء)

1877ء: یوم پیدائش، سیالکوٹ (پاکستان) میں 9 نومبر 1977ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کشمیری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔

1893ء تا 1895ء: سکاچ مشن کالج سیالکوٹ سے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی تعلیم مکمل کی۔

1987ء: گورنمنٹ کالج لاہور (جی سی) سے عربی اور فلسفے میں گریجوایشن (بی اے)میں امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔ ان کو عربی میں اعلیٰ نمبر حاصل کرنے پر جمال الدین گولڈ میڈل اور انگریزی میں بھی گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔

1899ء: گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفے میں ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ پنجاب بھر میں اول پوزیشن حاصل کی اور گولڈ میڈل جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ اورینٹل کالج لاہور میں عربی خواں (ریڈر) کے طور پر شمولیت اختیار کی۔

1900ء: انجمن حمایتِ اسلام (لاہور) کی سالانہ تقریب میں اپنی پہلی نظم "نالہء یتیم" پڑھی۔

1901ء: آپ کی نظم "ہمالہ" ، مجلہ "مخزن" میں شائع ہوئی۔ اسی برس اسسٹنٹ کمشنر کا امتحان دیا لیکن طبی بنیادوں پر انتخاب نہیں ہوسکا۔

1903ء: گورنمنٹ کالج لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہوئے۔ ان کی پہلی کتاب (نثر) "علم الاقتصاد" شائع ہوئی۔

1905ء: اعلیٰ تعلیم کے حصول کے برطانیہ روانہ ہوئے۔

1907ء: میونخ یونیورسٹی جرمنی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان تھا؛ "ایران میں مابعد الطبیعات کا ارتقا" (The Development of Metaphysics in Persia)

1907ء تا 1908ء: یونیورسٹی آف لندن میں پروفیسر آف عریبک تعیانت ہوئے۔

1908ء: لندن سے بار-ایٹ-لاء کی ڈگری حاصل کی۔ اسی برس ہندوستان واپس لوٹے اور 22 اکتوبر 1908ء کو وکالت شروع کردی۔ جزوقتی طور پر فلسفے اور ادب کے پروفیسر بھی خدمات سرانجام دیں۔

1911ء: لاہور میں اپنی شہرہ آفاق نظم "شکوہ" لکھی اور پڑھی۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں فلدفے کے شعبے میں بطور پروفیسر تقرری۔

1912ء: اپنی نظم "جوابِ شکوہ" لکھی۔

1913ء: مڈل سکول کے طلبہ کے لیے  درسی کتاب "تاریخِ ہند (ہسٹری آف انڈیا)" لکھی۔

1915ء: علامہ اقبال کی طویل فارسی نظم "اسرارِ خودی" شائع ہوئی۔ اسی برس گورنمنٹ کالج لاہور سے پروفیسری کی نوکری کو خیرآباد کہہ دیا۔

1918ء: "اسرارِ خودی" کے بعد ان کی دوسری فارسی نظم "رموزِ خودی" شائع ہوئی۔

1920ء: ان کی فارسی نظم "اسرارِ خودی" کا انگریزی ترجمہ آر اے نکلسن نے "Mysteries of Selflessness" کے نام سے کیا۔ انھوں اسی برس کشمیر کا دورہ کیا اور سری نگر میں ایک مشاعرے میں اپنی مشہور نظم "ساقی نامہ" پڑھی۔

1923ء: یکم جنوری 1923ء کو برطانوی شاہ کی جانب سے "سر" (نائٹ ہُڈ) کے خطاب سے نوازا گیا۔ آپ کا فارسی کلام "پیامِ مشرق" شائع ہوا۔ علامہ اقبال نے یہ کلام گوئٹے کے West-Ostlicher Divan کے جواب میں لکھا۔

1924ء: علامہ اقبال نے چھٹی اور ساتویں جماعت کے لیے اردو کی درسی کتب تیار کیں۔ مارچ 1924ء میں ان کی اردو شاعری کی شہرہء آفاق کتاب "بانگِ درا" کا پہلا ایڈیشن شائع ہوا۔

1926ء: پنجاب مجلس شوریٰ (پنجاب لیجسلیٹو کونسل) کے رکن (1926 تا 1929) منتخب ہوئے۔

1927ء: علامہ اقبال کا فارسی کلام "زبورِ عجم" شائع ہوا۔

1929ء: انھوں نے مِدراس، عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد اور علی گڑھ میں جدید سائنسی اور فلسفیانہ ترقی (1920 کے عشرے تک) کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں 6 محاضرات (لیکچرز) دیے۔ یہ لیکچرز بعد ازاں کتاب صورت میں Reconstruction of Religious Thought in Islam کے نام سے شائع کیے گئے۔

1930ء: آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے صدارتی خطبے میں ہندوستان میں علیحدہ مسلم ریاست کا تصور پیش کیا۔

1931ء: 1929ء میں مدراس، حیدرآباد اور علی گڑھ میں دیے گئے چھے لیکچرز "تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ" Reconstruction of Religious Thought in Islam کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ اسے آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا۔

اسی برس موتمر العالمی اسلامی (ورلڈ مسلم کانفرنس) فلسطین میں شریک ہوئے۔ 7 ستمبر تا 31 دسمبر 1931ء کو لندن میں منعقدہ دوسری گول میز کانفرنس میں بھی شرکت کی۔

1932ء: پیرس (فرانس) کا دورہ کیا اور وہاں مشہور فرانسیسی فلسفی برگساں اور ماسینون سے ملاقات کی۔ برگساں علامہ اقبال کے اسلام کے تصورِ زماں سے متعلق نظریات سن کر حیرت زدہ رہ گئے۔ اسی برس فارسی کلام "جاوید نامہ" شائع ہوا۔ یہ دانتے کی "ڈیوائن کامیڈی" کے جواب میں لکھی گئی۔ 17 نومبر تا 24 دسمبر 1932 کو لندن میں منعقدہ تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی۔

1933ء: علامہ اقبالؒ نے اطالوی سیاست دان اور صحافی میسولینی کی خواہش پر ان سے روم میں ملاقات کی۔ اسی دورے میں قرطبہ (ہسپانیہ/سپین) تشریف لے گئے۔ وہاں انھوں نے اپنی مشہور نظمیں "دعا" اور مسجدِ قرطبہ" تحریر کیں۔ اکتوبر 1933ء میں حکومت افغانستان کے اعلیٰ تعلیم کے مشیر کے طور پر خدماست سرانجام دیں۔ 4 دسمبر 1933ء کو پنجاب یونیورسٹی نے ان کو پوسٹ ڈاکٹریٹ (ڈی لِٹ) کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔

1934ء: علامہ اقبال کی فارسی مثنوی "مسافر" شائع ہوئی۔

1935ء: اردو شاعرانہ کلام "بالِ جبریل" کا پہلا ایڈیشن شائع ہوا۔

1936ء: اپریل 1936 میں "ضربِ کیلم" چھپی۔ اپریل 1936ء میں "پس چہ باید کرد اے اقوامِ مشرق" (فارسی) اور ستمبر 1936ء میں "پیامِ مشرق" (اردو) شائع ہوئی۔

1937ء: جامعہ الازہر مصر کے علما کے ایک وفد نے لاہور میں علامہ اقبال سے ملاقات کی۔

1938ء: جنوری 1938ء میں جواہر لال نہرو علامہ اقبال سے ملاقات کے لیے لاہور آئے۔

علامہ اقبال کا یومِ وفات: 21 اپریل 1938ء کو علامہ اقبال خالقِ حقیقی سے جاملے۔

علامہ اقبال کی اردو اور فارسی نظموں کا مجموعہ "ارمغانِ حجاز" ان کی وفات کے بعد 1938٭ میں شائع ہوا۔

 

متعلقہ عنوانات