دھویں کے پھول
گم شدہ قربتیں مقتل وقت کی پہلی چوکھٹ پہ سر کو جھکائے ہوئے اپنی بے قامتی پر کراہیں ذرا راندۂ خیر و شر ہوں مگر اس گھڑی رت جگوں کے لیے سارے ہنستے ہوئے زخم لے آؤں گا اک نئے دن کا آغاز ہو جائے گا خرمن دل میں خوشبو مہک جائے گی
گم شدہ قربتیں مقتل وقت کی پہلی چوکھٹ پہ سر کو جھکائے ہوئے اپنی بے قامتی پر کراہیں ذرا راندۂ خیر و شر ہوں مگر اس گھڑی رت جگوں کے لیے سارے ہنستے ہوئے زخم لے آؤں گا اک نئے دن کا آغاز ہو جائے گا خرمن دل میں خوشبو مہک جائے گی
در گل پہ سورج کی دستک سے پہلے سجا لوں گا اپنی جبیں پر گئی رات کی خنکیاں ساعتوں کی مقدر میں ہے تشنگی کیسے انعام شبنم کی جرأت کروں شرمساری سے لوٹوں یہ ممکن نہیں ہو سکے تو ابھی شب رفتہ کی سوگند کو بھول کر تتلیوں کے سبھی زنگ چھونے چلوں یوں نئے دن کے ہم راہ جینے چلوں
معنی کی زمیں سے اگنے والے پیڑ کی خواہش کا بیج
دور گگن کی اس نگری میں کالے بادل شور مچاتے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے اور چمن کے ویرانے میں خود رو پودے پیلے بدن میں سر کو چھپائے کانپ رہے تھے ایسے میں یہ میں نے دیکھا سرخ گلاب کا ننھا پودا ویرانے سے جھانک رہا تھا اس کی آنکھوں سے بادل کو تاک رہا تھا بادل اپنی آنکھ مچولی بھول گئے ...
جسم کے اندر سسکتا کون ہے ایسے ویرانے میں بستا کون ہے یہ ٹھٹھرتی رات برفیلا سماں گیلی آنکھوں میں اترتا کون ہے خوف مٹنے کا نہیں ہے دوستو یہ بتا دینا کہ مٹتا کون ہے رام سا بن باس کچھ مشکل نہیں صرف اک مشکل ہے سیتا کون ہے شہر سارا جل گیا اب سوچیے شہر کے نقشے بدلتا کون ہے مجھ کو ...
سوچ کے دھاگے دور کھڑے گونگے ہاتھوں سے اجڑے پیڑ کی سوکھی شاخوں پر اک پتا باندھ رہے ہیں میرے جینے کی خواہش مصلوب ہوئی ہے
عمر پختہ ہو چکی ہے جسم قدرے بھر گیا ہے رنگ بھی نکھرا ہوا ہے ذہن یہ سب چھوڑیئے چہرہ کہاں ہے
ہزار لاکھ امیدوں کا ہم سفر سورج یہاں سے دور بہت دور تھک کے بیٹھ گیا کبھی وہ دل کے دریچے سے جھانکتا تھا کبھی الجھتا رہتا تھا پلکوں کی چھاؤں سے اکثر مری رگوں میں رواں تھا کبھی لہو کی طرح کتاب عمر کا چالیسواں ورق چھو کر الجھ گیا ہوں کوئی راستہ نہیں ملتا یہاں سے دور بہت دور تک اندھیرا ...
دھوپ چھتوں سے بنیادوں تک اتری تھی پھر بھی وہ ایک دیپ جلائے دور پہاڑوں کی چوٹی پر دھوپ ڈھونڈنے چلا گیا ہے
پہلے یہ ہونٹ پنکھڑی سے تھے چھو کے اوس ان کو کانپ جاتی تھی اب وہی ہونٹ ہیں مگر ان پر ایک بنئے نے لکھ دیا ہے حساب