سمجھوتہ
در گل پہ سورج کی دستک سے پہلے
سجا لوں گا اپنی جبیں پر
گئی رات کی خنکیاں
ساعتوں کی مقدر میں ہے تشنگی
کیسے انعام شبنم کی جرأت کروں
شرمساری سے لوٹوں یہ ممکن نہیں
ہو سکے تو ابھی
شب رفتہ کی سوگند کو بھول کر
تتلیوں کے سبھی زنگ چھونے چلوں
یوں
نئے دن کے ہم راہ جینے چلوں